1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کی اسرائیل سے متعلق سیاست میں سختی

کلاؤس یانسن، مقبول ملک19 جولائی 2013

اسرائیل میں اس وقت کافی جذباتیت پائی جاتی ہے: اخبارات کےمطابق یورپی یونین نے اسرائیل کا بائیکاٹ کر دیا ہے اور سرکردہ سیاستدانوں کے بقول یورپ نے اسرائیل کو سونے کا نوالہ کھلانے کے بعد شیر کی آنکھ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19Ag1
تصویر: picture-alliance/dpa

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسرائیل پر اس کی سرحدوں کے تعین کے لیے مذاکرات کی بجائے اقتصادی دباؤ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان سب بیانات کی وجہ یورپی یونین کی اسرائیل سے متعلق سیاست میں آنے والی نئی تبدیلی ہے۔

Israel Palästina Palästinenser Siedlung Siedlungsbau Jerusalem Ramat Sholmo Ostjerusalem Flash-Galerie
اسرائیل اب تک مقبوضہ مشرقی یروشلم میں کئی بڑی بڑی یہودی بستیاں تعمیر کر چکا ہےتصویر: AP

یورپی کمیشن نے فیصلہ یہ کیا ہے کہ اگلے سال کے شروع سے ہر اس اسرائیلی ترقیاتی منصوبے کے لیے، جس کی خاطر یورپی یونین کی طرف سے مالی امداد مہیا کی جائے گی، متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے ایک ضمانت نامے پر دستخط کرنا ہوں گے کہ یورپی ٹیکس دہندگان کی ادا کردہ یہ رقوم مغربی اردن، گولان کی پہاڑیوں یا مشرقی یروشلم کے علاقے میں کسی منصوبے پر خرچ نہیں کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ایسے اسرائیلی اداروں کی مقبوضہ اور واضح طور پر متنازعہ علاقوں میں کوئی شاخیں بھی نہیں ہونی چاہییں۔

اس طرح یورپی یونین نے واضح کر دیا ہے کہ اس کے لیے قانونی طور پر اسرائیلی ریاست صرف اسی علاقے پر مشتمل ہے، جو 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیلی جنگ سے پہلے تک اسرائیل کا طے شدہ ریاستی علاقہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں تمام تر یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون کے منافی ہیں۔

اس بارے میں یورپی یونین کا اعلامیہ جمعہ 19 جولائی کے روز یونین کے اس گزٹ میں شائع کر دیا گیا، جس میں یورپی اعلامیے اور ضوابط شائع کیے جاتے ہیں اور یوں اس اعلان کو اس بلاک کے سرکاری ضابطے کی باقاعدہ حیثیت حاصل ہو گئی۔

اسرائیل کے لیے مالی امداد سے متعلق اس نئے ضابطے کا اطلاق صرف ایسے معاہدوں پر ہو گا، جو نئے طے کیے جائیں گے۔ پہلے سے موجود معاہدوں پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا اور اسی بات پر جرمنی میں ترقی پسندوں کی جماعت ایف ڈی پی سے تعلق رکھنے والی یورپی پارلیمان کی خاتون رکن الیکساندرا تھائن ناخوش بھی ہیں۔

Israelische Siedlung Beit El
مقبوضہ مغربی اردن کے علاقے میں قائم کئی یہودی بستیوں میں سے ایک کے رہائشی قدامت پسند یہودی اپنے گھروں کے سامنے عبادت کرتے ہوئےتصویر: AFP/Getty Images

وہ کہتی ہیں، ’میری ذاتی رائے میں بہتر یہ ہوتا کہ اس ضابطے کا اطلاق مستقبل کی بجائے ماضی سے ہوتا لیکن ایسا قانونی طور پر تقریباﹰ ناممکن ہے‘۔ مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر جرمنی کی اس خاتون سیاستدان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اس نئے ضابطے کے اگلے سال سے مؤثر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی اداروں کو پہلے سے موجود معاہدوں کے تحت جو یورپی رقوم مہیا کی جا رہی ہیں، وہ انہیں ملتی رہیں گی۔ الیکساندرا تھائن کے بقول اس کا سبب اس بارے میں اسرائیل کے ساتھ اس وقت کسی بڑے تنازعے سے بچنے کی کوشش ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران عہدیدار کیتھرین ایشٹن کا کہنا ہے کہ یونین کا یہ اعلامیہ کوئی بہت غیر معمولی اقدام اس لیے نہیں ہے کہ یورپی یونین کا پہلے بھی یہی موقف تھا لیکن اب اس معاملے میں شفافیت آ گئی ہے۔

یہ بات واضح نہیں کہ آئندہ برسوں میں اسرائیل کو یونین کی طرف سے کتنی ترقیاتی رقوم مہیا کی جائیں گی۔ لیکن یہ امر واضح ہے کہ یونین اسرائیل میں ریسرچ، نوجوانو‌ں سے متعلقہ امور، کھیلوں اور پولیس تک کے شعبوں میں کافی منصوبوں کے لیے مالی وسائل مہیا کرتی ہے۔

یورپی یونین کا مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فعال اسرائیلی اداروں کے خلاف اس کے علاوہ مزید کوئی اقدامات کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں