یورپی یونین کی صدارت چھ ماہ کے لیے بلغاریہ کے پاس
1 جنوری 2018یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے سب سے غریب ترین ریاست شمار ہونے والا بلغاریہ 2007ء سے یونین کا رکن ہے اور وہ ابھی تک یورپی مالیاتی اتحاد اور یونین کے آزاد سرحدی معاہدے میں بھی شامل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلغاریہ ابھی تک نہ تو یونین کے یورو زون میں شامل ہوا ہے اور نہ ہی وہ اس بلاک کے شینگن زون کا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ یورپی یونین کی ہر چھ ماہ بعد بدلنے والی صدارت کی روایت کے باعث پہلی مرتبہ اس بلاک کی سربراہی سال رواں کی پہلی ششماہی کے لیے ایک ایسے ملک کو منتقل ہو گئی ہے، جہاں انصاف اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کے شعبوں میں نہ صرف کافی خامیاں پائی جاتی ہیں بلکہ انہی وجوہات کی بناء پر یورپی یونین کا کمیشن بلغاریہ پر خاص طور پر نگاہ بھی رکھے ہوئے ہے۔
صوفیہ میں ملکی حکومت نے ایک ایسے مشکل وقت پر یونین کی صدارت سنبھالی ہے، جب ایک طرف تو یونین کے ماہرین صوفیہ حکومت کے اقدامات کا خصوصی مشاہدہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف خود دو درجن سے زائد یورپی ریاستوں کے اس اتحاد کو برطانیہ کے یونین سے اخراج یا بریگزٹ سے متعلق مذاکرات اور یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران کے حوالے سے ایسے متنازعہ امور کا سامنا ہے، جو تاحال حل نہیں ہوئے۔ بلغاریہ کو یورپی یونین کی کونسل کی سربراہی کرتے ہوئے اس ششماہی کے دوران وہ تیاریاں بھی واضح پیش رفت کے ساتھ جاری رکھنا ہوں گی، جن کا مقصد اس بلاک کے 2020ء کے بعد کے عرصے کے لیے بجٹ کی تیاری اور منظوری ہے۔
بلغاریہ میں پھنسے ہزارہا مہاجرین اور تارکین وطن
’بلغارین ڈونلڈ ٹرمپ‘ پر بھتہ خوری کا مقدمہ
بلغاریہ: نو پاکستانی اور افغان تارکین وطن ہلاک
صوفیہ حکومت میں یورپی یونین کی صدارت سمیت اس بلاک سے متعلقہ امور کی نگران خاتون وزیر للیانا پاولووا کے مطابق بلغاریہ کی طرف سے یونین کی سربراہی کے دوران اپنی ذمے داریوں کے کامیابی سے انجام دیے جانے کے لیے ضروری ہو گا کہ تمام رکن ریاستیں آپس میں سیاسی اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ مکالمت اور باہمی افہام و تفہیم کی سوچ اپنائی جائے۔
صوفیہ حکومت اس سال جون کے آخر تک اپنے یہ فرائض انجام دیتے ہوئے اس بات پر بھی پوری توجہ دے گی کہ یہ بلاک یورپی نوجوانوں کے روشن مستقبل کی منزل کو بھی پوری طرح پیش نظر رکھے اور ساتھ ہی مغربی بلقان کی خطے کے ممالک کی یورپی یونین میں شمولیت کی خواہشات اور ان خواہشات پر عمل درآمد کے امکانات کو بھی پس پشت نہ ڈالا جائے۔
بلغاریہ یورپی یونین کی سطح پر اگلے چھ ماہ کے دوران ’باہمت قیادت‘ کا مظاہرہ کرنے پر زور نہیں دے گا۔ اس کی کوشش ہو گی کہ رکن ریاستوں میں زیادہ افہام و تفہیم اور قربت پیدا کی جائے، خاص کر مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد سے پیدا ہونے والے بحران کے حوالے سے مشرقی اور مغربی یورپی ریاستوں کے مابین پائے جانے والے سوچ کے واضح فرق کے خاتمے کے لیے۔ اس لیے کہ اس سال یکم جولائی سے یونین کی صدارت بلغاریہ سے آسٹریا کو منتقل ہو جائے گی، اور مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق ویانا حکومت کا موقف تو عرصے سے انتہائی سخت رہا ہے۔
بلغاریہ سے ’افغان مہاجر‘ نکال دیے جائیں گے، وزیر اعظم
بریگزٹ معاہدہ ترکی اور یوکرائن کے لیے ماڈل ہو سکتا ہے، جرمنی
یورپی یونین ختم کی جائے، انتہائی دائیں بازو کی یورپی جماعتیں
داخلی سیاسی سطح پر یہ یورپی ذمے داریاں بلغاریہ کی حکومت کے لیے اس وجہ سے بھی بہت صبر آزما ہوں گی کہ صوفیہ میں اس وقت جو مخلوط ملکی حکومت قائم ہے، اس میں انتہائی حد تک قوم پرستوں کی جماعت ’متحدہ محب وطن‘ بھی شامل ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ نائب وزیر اعظم ویلیری سیمیئونوف تو ملکی اقلیتوں کے بارے میں کافی متنازعہ بیانات بھی دے چکے ہیں۔ ایک بار تو انہوں نے عوامی سطح پر بلغاریہ میں روما نسلی اقلیت کو ’وحشی بن مانس‘ تک قرار دے دیا تھا۔