یونان اور ترکی کی مشترکہ سرحدوں پر مہاجروں کی کسمپرسی
6 مارچ 2020یونان اور ترکی کی مشترکہ سرحد پر جمعہ کے روز بھی ترکی کی طرف سے آنسو گیس شیلز پھینکے جانے اور یونانی سکیورٹی فورسزکی طرف سے پناہ کے متلاشی افراد کو طاقت کے زور پر یونانی سرحدوں میں داخلے سے روکنے کی کوششیں جاری رہیں۔
نشریاتی ادارے اسکائی نے یونانی علاقے کستانیز کی فوٹیجز شائع کی ہیں جن میں آنسو گیس سے دھندلائے بادل دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہ یونانی علاقہ ہے جہاں تارکین وطن پناہ کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس جگہ انتیس فروری سے جھڑپوں اور پُر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ترکی کے مقامی میڈیا نے بتایا کہ پانچ ہزار کے قریب مہاجرین پازارکول سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔
انقرہ کے اقدامات
ترکی نے جمعرات کی شب سے یونان سے ملحقہ بحری سرحدی علاقے میں ایک ہزار پولیس اہلکاروں پر مشتمل مضبوط اسپیشل فورس کی تعیناتی شروع کردی تھی۔ یہ اسپیشل فورس اُس یونٹ کا حصہ ہے جو دریائے ایوروس، جو ترکی میں میرک کے نام سے جانا جاتا ہے، پر کشتیوں پر گشت کرے گی۔ اس کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ مہاجرین واپس ترکی کی سرحدوں کی طرف نہ لوٹیں۔ اُدھر یونانی وزیر اعظم کریاکوس مٹسوتاکس اپنے بارڈر پر سخت پہرے لگائے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ مہاجرین یونانی سرحدوں میں داخل نہ ہو پائیں۔ یونانی حکومت کے اقدامات کو یورپی یونین کی تائید و حمایت حاصل ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ان پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
یونانی کارروائیاں
جمعرات کو ایتھنز حکومت نے اعلان کیا تھا کہ یکم مارچ کے بعد سے غیر قانونی طور پر یونان کے شمالی شہر سیرس میں داخل ہونے والے مہاجرین کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ ہزاروں افراد ترکی کے راستے یونان پہنچ گئے ہیں ، بہت سے مہاجرین سمندری راستے سے لیسبوس اور دیگر یونانی جزیروں تک پہنچ چُکے ہیں۔ انقرہ اور ایتھنز ایک دوسرے پر الزامات عائد کررہے ہیں کہ ان کی مشترکہ سرحدوں پر مہاجرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں حالیہ دنوں میں ان مشترکہ سرحدوں پر سکیورٹی فورسزاور مہاجرین کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
دریں اثناء یونانی وزیر برائے امور مہاجرت نے کہا،'' ہمارا مقصد مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجنا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یکم جنوری 2019 ء سے قبل ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن جو جزیروں پر رہائش پذیر ہیں، ان کو آئندہ دنوں میں یونان کے مین لینڈ یعنی شہروں کی طرف منتقل کر دیا جائے گا۔ یونان نے یکم مارچ کو اعلان کیا تھا کہ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کے یونانی سرحدوں تک پہنچ جانے کے سبب حالات سنگین ہو گئے ہیں اس لیے اب آئندہ ایک ماہ تک پناہ کے متلاشی افراد کی پناہ کے لیے کوئی ایک درخواست بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ ایتھنز کے اس اعلان کی انسانی حقوق کی ایجنسیز نے سخت مذمت کی ہے۔
ترکی نے اپنی پالیسی کیوں بدلی؟
ترکی نے یونانی فورسز پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے ایک مہاجر کو گولی مار کر ہلاک کیا ہے جبکہ پانچ دیگر افراد اُس کی کارروائیوں کے نتیجے میں زخمی ہوئے ہیں۔ یونان نے تاہم اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے ترکی پر جوابی الزام عائد کیا ہے کہ ترک پولیس آنسو گیس کا استعمال کر کے تارکین وطن کی غیرقانونی طور پر یونانی علاقوں میں داخل ہونے کی کوششوں میں مدد کر رہی ہے۔ ترکی کی پالیسی میں یہ تبدیلی دراصل شام میں روسی حمایت یافتہ حکومتی فوجی دستوں کی جانب سے کیے گئے ایک فضائی حملے میں 33 ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔
یونانی جزیروں پر تارکین وطن کی صورتحال
یونان کا تیسرا سب سے بڑا جزیرا لیسبوس پہلے ہی بیس ہزار سے زیادہ پناہ کے متلاشی افراد کی میزبانی کر رہا ہے اور وہاں قائم مہاجر کیمپوں کی حالت بہت ہی خراب ہے۔ حفظان صحت کے وسائل نہ ہونے کے سبب انتہائی گندگی اور آلودگی میں یہ مہاجریں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چند پناہ گزین جن میں بچے بھی شامل ہیں، انہوں نے استنبول سے 220 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم شہر ایدرن کی متروک، بیابان عمارتوں میں پڑاؤ ڈالا ہوا ہے۔ یہ شہر دراصل بلغاریہ، ترکی اور یونان کے تکونے سرحدی علاقے میں واقع ہے۔ دریں اثناء ترکی کے وزارت داخلہ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ جب سے ترکی نے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں تب سے اب تک ایک لاکھ بیالیس ہزار پناہ گزین ترکی سے یونان کی سرحدوں میں داخل ہو چُکے ہیں۔
ک م / ع ا / ایجنسیاںء