یونان تک تو پہنچ گئے، اب آگے کیسے جائیں؟
22 فروری 2016خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹوں کے مطابق مقدونیہ کی جانب سے یونان سے متصل اپنی سرحد بند کرنے کے بعد ہزاروں تارکین وطن یونان میں پھنس گئے ہیں۔ دریں اثنا افغان پناہ گزینوں نے سرحد کی بندش کے خلاف یونان میں احتجاج شروع کر دیا ہے۔
لاکھوں مہاجرین یورپ بھیج دیں گے، ایردوآن کی دھمکی
مایوس مہاجرین آسٹریا سے اپنے اپنے وطن واپس جانے لگے
یونانی وزیر برائے مہاجرین یوانِس موزالاس کا کہنا ہے کہ یورپی یونین رکن ممالک کو انفرادی سطح پر سرحدوں کی بندش جیسے اقدامات کرنے سے روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
دوسری جانب آج ہنگری کا کہنا ہے کہ سربیا سے ہنگری کی حدود میں غیر قانونی طور پر آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پندرہ سو کے قریب تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر اپنے ملک میں داخل ہونے کے بعد گرفتار کر لیا ہے۔
ہنگری کا کہنا ہے کہ وہ لوگ اقتصادی بنیادوں پر ہجرت کرنے والے لوگ ہیں اور ان کا تعلق پاکستان، ایران اور مراکش سے ہے۔ شام اور عراق کے برعکس ان ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔
مقدونیہ کی جانب سے سرحد پر سختی کرنے کے یہ اقدامات آسٹریا کی جانب سے تارکین وطن کا یومیہ کوٹہ مقرر کرنے کے بعد سامنے آئے ہیں۔
موزالاس نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’ایک مرتبہ پھر سے یورپی یونین میں رائے شماری کے ذریعے ایک بات پر اتفاق رائے طے پایا لیکن بد قسمتی سے آسٹریا سمیت ایسے ممالک جن میں یورپی اقدار کی کمی ہے، انہوں نے معاہدہ طے پانے کے دس گھنٹے کے اندر اندر اس کی خلاف ورزی بھی کر دی۔‘‘
رواں سال کے آغاز سے اب تک بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ایک لاکھ کے قریب تارکین وطن ترکی سے یونان جزیروں تک پہنچ چکے ہیں۔ یونانی پولیس کا کہنا ہے کہ سرحد بند ہونے کے بعد چھ سو افغان شہریوں سمیت دو ہزار تارکین وطن مقدونیہ کی سرحد پر پھنس گئے ہیں۔ ان پناہ گزینوں نے مقدونیا کے اقدامات کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے۔ تارکین وطن نے زبردستی خار دار تاریں ہٹا کر سرحد پار کرنے کی کوشش کی جس کے بعد یونانی پولیس کے سینکڑوں اہلکاروں نے انہیں واپس دھکیل دیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہیں آگے جانے کی اجازت نہ دے کر ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ پچیس سالہ افغان تارک وطن شفیع اللہ کبیری نے نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم یہاں تین دن سے پھنسے ہوئے ہیں اور کوئی نہیں بتا رہا کہ ہمیں آگے جانے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔‘‘
محمد آصف نامی ایک پناہ گزین کا کہنا تھا، ’’ہم واپس نہیں جا سکتے۔ یا تو ہم یہیں مر جائیں گے یا پھر ہم جرمنی جانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے ہمارا بہت خرچہ ہو چکا ہے۔ جرمنی نے کہا تھا کہ وہ مہاجرین کو خوش آمدید کہے گا، اب ہمیں کیوں نہیں آنے دیا جا رہا۔‘‘