1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں مہاجرین کو انضمام میں مشکلات کا سامنا

13 فروری 2022

حکومتِ یونان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پالیسیاں مہاجرین دوست نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر مہاجرین کو معاشرے میں ضم ہونے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

https://p.dw.com/p/46tWt
Griechenland | Hassan Muhammad
تصویر: Florian Schmitz/DW

حکومتِ یونان کی مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کو مہاجرین دوست نہیں خیال کیا جاتا۔ ان حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اکثر مہاجرین کو یونانی معاشرے میں ضم ہونے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاہم پاکستانی مہاجر حسن محمد کہانی کچھ مختلف ہے۔

یونان کا ترکی پر آبی راستے کے ذریعہ مہاجرین کو بھیجنے کا الزام

پاکستان سے حسن محمد نے 2018ء میں اٹھارہ برس کی عمر میں یونان ہجرت کی تھی۔انہوں نے تیرہ برس کی عمر میں پاکستان میں ایک کپڑے بنانے والی فیکٹری میں کام شروع کیا۔ تین برس بغیر تنخواہ کے تربیت حاصل کی اور پھر سولہ برس کی عمر میں اپنے خاندان کی مالی مشکلات کو کم کرنے کے لیے نوکری شروع کر دی۔

Griechenland EU-Flüchtlingspolitik | Lager Chios 2020
یونان میں تارکینِ وطن کو کیمپوں میں انتہائی ناموافق حالات کا سامنا ہےتصویر: Michalis Karagiannis/ANE Edition/imago images

حسن محمد کی سولہ سولہ گھنٹے کی محنت کے بعد حاصل ہونے والی ماہانہ کمائی محض پچاس یورو کے مساوی تھی۔ بنگالی نژاد ہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان میں شدید امتیازی سلوک کا بھی سامنا رہا۔

مہاجرت واحد راستہ

حسن محمد کے مطابق پاکستان میں انہیں حقوق میسر نہیں تھے اور زندگی سنگین خطرات کا شکار ہو کر رہ گئی تھی۔ ان حالات میں انہوں نے نابالغی میں یونان ہجرت کرنے کی ٹھان لی۔ وہ نومبر سن 2018 میں ایک ایسے نابالغ کے طور پر یونان پہنچے، جس کا کوئی سرپرست نہیں تھا۔

بلقان کی سرحد پر موجود مہاجرین کو پولیس کے تشدد کا سامنا

ابتدائی تین ماہ سولہ سال حسن محمد ایتھنز کی سڑکوں پر زندگی بسر کرتے رہے اور پھر انہیں بھی دوسرے مہاجرین کی طرح ایک مرکز میں جگہ دستیاب ہو گئی اور ایک یونانی امدادی تنظیم نے انہیں کم سن سمجھ کر مناسب امداد بھی فراہم کی۔

Griechenland EU-Flüchtlingspolitik | Lager Kara Tepe Lesbos 2020
یونان میں مہاجرین کو بارش کے بعد کیمپوں میں کھڑے پانی کی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہےتصویر: Anthi Pazianou/Getty Images/AFP

سالونیکی شہر میں آباد

ایک سوشل ورکر نے یورپی یونین ہاؤسنگ پروگرام کے تحت حسن محمد کو سالونیکی شہر میں آباد ہونے میں مدد فراہم کی اور ان کا رابطہ ایک جرمن یونانی امدادی گروپ ناؤمی (Naomi) سے بھی کرایا۔

سالونیکی میں حسن محمد اور چھ دوسرے مہاجرین ایک ٹیکسٹائل ورک شاپ میں گزشتہ چھ ماہ سے کام کر رہے ہیں اور پائیدار فیشن ایبل کپڑے تیار کر رہے ہیں۔ ان کے کام کے اوقات معین ہیں اور اجرت بھی مناسب ہے۔

اس موقع کی دستیابی پر حسن محمد بہت خوش اور شکر گزار ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے حسن محمد کا کہنا ہے کہ وہ بہت خوش ہیں کہ یونانی ریاست نے ان کے حقوق تسلیم کیے اور ایسے کاغذات فراہم کیے جن کی بنیاد پر وہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

موریا کیمپ: آگ لگنے کے ایک سال بعد بھی مہاجرین مشکلات کا شکار

انضمام اہم ہے

جرمن یونانی امدادی تنظیم ناؤمی کا کہنا ہے کہ ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مہاجرین کی مدد کر کے انہیں یونان میں زندگی بسر کرنے کا موقع دیا جائے۔ تنظیم کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ اس ملک میں آباد مہاجرین کے بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے یونانی معاشرے کا حصہ بن سکیں۔

Griechenland EU-Flüchtlingspolitik | Lager Lesbos 2020
مہاجر کیمپوں میں زندگی بظاہر مشکل اور حفظانِ صحت کے بنیادی اصولوں سے بھی دُور ہےتصویر: Manolis Lagoutaris/Getty Images/AFP

اس تنظیم کی ستر سالہ ڈائریکٹر ڈورتھی واکالیس جرمنی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ سن انیس سو ستر کی دہائی سے  سالونیکی شہر میں رہ رہی ہیں اور وہ ایک پروٹیسٹنٹ مذہبی پاسٹر کے فرائض ادا کرتی رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بظاہر وہ ایک ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہی ہیں لیکن مشکل حالات میں گِرے پریشان افراد کی مدد کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یونان افغان مہاجرین کو اپنی سرحد سے گزرنے کی اجازت نہیں دے گا

یونان میں ناؤمی تنظیم کی سرگرمیاں غیر معمولی تصور کی جاتی ہیں اور یہ پرائیویٹ انداز میں اپنے امور مکمل کرتی ہے۔ ڈورتھی واکالیس یونان میں مہاجرین کی حالتِ زار پر گہری تشویش رکھتی ہیں اور یونانی حکومتی پالیسیوں کو حوصلہ شکن قرار دیتی ہیں۔

فلوریان شمٹس، سالونیکی یونان (ع ح/ ع ا)