یونان میں سیاسی غیر یقینی سے ملکی مالیاتی بحران میں شدت کا خدشہ
10 نومبر 2011یونانی وزیر اعظم پاپاندریو نے گزشتہ روز کہا کہ وہ اتحادی حکومت کے وزیر اعظم کی ذمہ داریاں پاپادیموس کو سونپنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو ان کے ذاتی دوست بھی ہیں۔ پاپاندریو نے پاپادیموس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور اپوزیشن رہنما کے ہمراہ ملکی صدر سے ملنے چلے گئے۔ جب وہ واپس آئے تو پتہ چلا کہ ان کے جانشین کے معاملے پر اتحادی جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں۔
پاپادیموس نے اتحادی جماعتوں سے اسرار کیا تھا کہ وہ انہیں اس بات کی تحریری ضمانت فراہم کریں کہ وہ یونان کے لیے 130 ارب یورو کے بیل آؤٹ پیکج کی حمایت کریں گی۔ اس بیل آؤٹ پیکج کے ساتھ کفایت شعاری کے سخت اقدامات بھی منسلک ہیں جو یونانی عوام میں انتہائی غیر مقبول ہیں۔
یاد رہے کہ پاپادیموس 2002ء میں یونان کے مرکزی بینک کے گورنر کی حیثیت سے ملک میں یورو کرنسی کے رائج ہونے کو دیکھ چکے ہیں۔ اسی حوالے سے یورو زون کے موجودہ مالیاتی بحران میں یونان کے لیے ان کی قیادت کو موزوں سمجھا جا رہا ہے۔ سوشلست جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم پاپاندریو ذاتی طور پر پاپادیموس کی شرط ماننے پر تیار ہیں۔
پاپادیموس صورتحال کی نزاکت واضح کرنے کے لیے کہہ چکے ہیں کہ یورو زون کے رکن ممالک میں یونان کے لیے برداشت کا مادہ ختم ہورہا ہے اور خدشہ ہے کہ وہ مالی امداد کا سلسلہ بند کردیں، جسے اُن کے بقول سیاسی جماعتوں نے ’مفت‘ سمجھ رکھا ہے۔
یونان کے ایک سابق وزیر مالیات سٹیفانوس مانوس کے بقول سوشلسٹ جماعت کے وزیر اعظم پاپاندریو اور اپوزیشن کے قدامت پسند رہنما اینٹونیس سماراس کا رویہ یونان کو یورو زون سے نکالنے کے دھانے پر لے آیا ہے۔ ’’یورپی قیادت ہم سے تنگ آچکی ہے، وہ ہمیں امداد دینا بند کر دیں گے اور ہم پھر اپنی پرانی کرنسی دراخما کی جانب چلے جائیں گے، موجودہ صورتحال میں بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے اور سیاسی قیادت کتے بلیوں کی طرح لڑ رہی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ یونانی حکومت کے پاس محض اگلے ماہ کے وسط تک کے اخراجات کے لیے رقم موجود ہے۔ یونان کے مرکزی بینک کے موجودہ گورنر پرووپولوس نے بھی غیر روایتی طور پر سیاسی امور میں مداخلت کرتے ہوئے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر یقینی صورتحال سے ملکی معیشت اور بالخصوص بینکاری کے نظام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل