1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں پاکستانیوں کی تعداد کتنی اور پناہ کتنوں کو ملی؟

شمشیر حیدر
8 جولائی 2018

یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرانے والوں میں پاکستانی شہریوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم پاکستانی تارکین وطن کو پناہ ملنے کی شرح نہایت کم ہے۔

https://p.dw.com/p/312Oz
Griechenland Lebos Migranten aus Pakistan Rückführung Türkei
تصویر: DW/R. Shirmohammadi

مائگریشن پالیسی سے متعلق یونانی وفاقی وزارت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اکیس ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں نے یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے حکام کو اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔ یوں پناہ کے خواہش مند پاکستانی شہریوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

مجموعی طور پر سن 2014 سے لے کر رواں برس جون کے مہینے تک کے عرصے میں یونان میں سیاسی پناہ کی ایک لاکھ 67 ہزار سے زائد درخواستیں جمع کرائی گئیں۔ ان میں سے ایک تہائی (چھپن ہزار) شامی مہاجرین، جب کہ قریب بیس ہزار افغان شہری بھی شامل ہیں۔

پناہ کے متلاشی پاکستانی شہریوں کی تعداد

یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد مجموعی تعداد کا قریب تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کے بحران کے عروج سے قبل تک یونان پہچنے والے تارکین وطن کی اکثریت یونان میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے کی بجائے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کا رخ کر رہی تھی۔

اسی وجہ سے سن 2013 میں محض چھ سو پاکستانی تارکین وطن نے یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اس کے مقابلے میں سن 2015 میں بلقان کی ریاستوں کی جانب سے زمینی راستے بند کیے جانے کے بعد مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے مغربی یورپ پہنچنے کے امکانات محدود ہوتے گئے تھے۔ اسی وجہ سے اس سے اگلے برس، یعنی سن 2016 میں، پونے پانچ ہزار پاکستانی شہریوں نے یونان ہی میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔

تاہم یونان میں پاکستانی شہریوں کی جانب سے سیاسی پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں (قریب نو ہزار) سن 2017 میں جمع کرائی گیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کے حوالے سے طے پانے والے ایک معاہدے پر مارچ 2016ء میں عمل درآمد بھی شروع ہو گیا تھا۔ اس کے بعد یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد بھی نمایاں طور پر کم ہو گئی تھی۔

رضاکارانہ وطن واپسی، آئی او ایم کیسے مدد کرتی ہے؟

اس دوران یونان میں محصور تارکین وطن، جن کی اکثریت کا تعلق پاکستان، افغانستان اور شام سے ہے، میں سے کئی نے یونان ہی میں اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بھی ساڑھے تین ہزار سے زائد پاکستانیوں نے یونان میں حکام کو اپنی پناہ کی درخواستیں دی ہیں۔

یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ ان اعداد و شمار میں ایسے پاکستانی تارکین وطن کو شامل نہیں کیا گیا جو غیر قانونی طور پر یونان میں تو موجود ہیں، تاہم ابھی تک وہ سیاسی پناہ کے حصول کے لیے اپنی درخواستیں نہیں جمع کرا سکے ہیں۔

اکثریت پاکستانی نوجوانوں کی

یونانی وزارت کے جاری کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق سیاسی پناہ کے پاکستانی درخواست گزاروں کی اکثریت نوجوانوں پر مبنی ہے۔ سیاسی پناہ کے خواہش مند ان پاکستانی شہریوں میں دو فیصد خواتین جب کہ دیگر اٹھانوے فیصد مرد ہیں۔

ان مرد پاکستانی تارکین وطن میں سے بھی 77 فیصد سے زائد کی عمریں اٹھارہ سے چونتیس برس کے مابین ہیں۔ ایتھنز حکومت اور بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت جیسے اداروں نے ملک میں موجود تنہا نابالغ مہاجر بچوں کے لیے بھی کئی طرح کے اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے نابالغ تارکین وطن کی تعداد بھی قریب ڈیڑھ ہزار بنتی ہے۔

پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح

پاکستنای تارکین وطن پناہ کی درخواستوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر تو ہیں لیکن پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے حوالے سے بھی پاکستان تارکین وطن چوتھے نمبر پر ہیں۔

یونان میں حکام نے سن 2013 سے لے کر سن 2017 تک کے پانچ برسوں کے دوران قریب سترہ ہزار پاکستانی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے۔ ان میں سے صرف 295 پاکستانی پناہ کے اہل قرار پائے جب کہ دیگر قریب اٹھانوے فیصد کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔