یونان: پاکستانیوں سمیت مزید تارکین وطن کی ترکی ملک بدری
17 نومبر 2017گزشتہ برس مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدے کے مطابق غیر قانونی طور پر یونان آنے والے تارکین وطن کی ترکی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔
یونان: پاکستانیوں سمیت کئی تارکین وطن کی ترکی واپسی
جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا، یونان
یونانی پولیس کے مطابق اسی معاہدے کے مطابق جمعرات سولہ نومبر کے روز مزید بیس تارکین وطن کو یونان سے واپس ترکی بھیجا گیا۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ترکی بھیجے جانے والے تارکین وطن کا تعلق پاکستان، افغانستان اور شمالی افریقی ممالک سے تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یونان سے ملک بدر کیے گئے ان بیس افراد میں سے دس تارکین وطن کی یونانی حکام کو جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں جب کہ باقی دس افراد نے اپنی پناہ کی درخواستیں واپس لے لی تھیں۔
جمعرات کے روز ان بیس افراد کو یونانی جزیرے لیسبوس سے ترکی کے ساحلی شہر ڈکیلی میں قائم پناہ گزینوں میں مرکز بھیج دیا گیا۔
مارچ سن 2016 میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترک ساحلوں سے بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر یونانی جزیروں پر آنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جاتا ہے۔ اب تک اس معاہدے کے تحت 1443 پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے جن میں زیادہ تعداد پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی ہے۔
ترکی سے یونان واپسی کے اس منصوبے میں سست روی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یونانی حکام پناہ کی درخواستیں نمٹانے میں زیادہ وقت لے رہے ہیں۔ ڈی پی اے کے مطابق یونان میں پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے والے ادارے کو عملے کی کمی کا سامنا ہے۔
دوسری جانب یونانی جزیروں پر تارکین وطن کے لیے بنائے گئے خصوصی مراکز میں مزید مہاجرین کو رہائش مہیا کرنے کی گنجائش بھی ختم ہو چکی ہے۔
یونان میں سیاسی پناہ کے قانون پر ایک نظر