090409 Frauen urd
11 اپریل 2009معاشرے کی پائیدار ترقی بذریعہ تعلیم یہ اس دہائی کا اقوام متحدہ کا ایک اہم پروجیکٹ ہے جس میں دنیا کے مختلف معاشروں کی خواتین غیر معمولی کردار ادا کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے 2005 میں DESD یاDecade of education for sustainable Development یعنی پائیدار ترقی کے لئے تعلیمی دہائی کی پیش قدمی شروع کی تھی۔ اس کا مقصد تعلیم اور تربیت کے تمام شعبوں کو پائیدارترقی کے اصولوں کے ساتھ مکمل طور پر مربوط کرنا تھا۔ اس سال جرمن شہر بون میں UNESCO کی طرف سے منعقدہ اس بین الاقوامی کانفرنس میں مختلف ممالک کے تقریباٍ 700 شرکاء نے حصہ لیا۔ ان میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔
افریقہ، ایشیاء، یورپ، امریکہ ہر طرف سے آئی ہوئی یہ خواتین اپنے معاشرے میں تعلیم کی مدد سے پائیدار ترقی کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ بھوک،غربت اور پسماندگی کے شکار براعظم افریقہ کی خواتین کو کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نا ہو وہ اپنے معاشرے کی ترقی کے لئے ممکنہ کوششیں کر رہی ہیں۔ جولیا ہوزا کا تعلق تنزانیہ سے ہے اور وہ یونیسکو کی نیشنل کمیشن کی چیف پروگرام آفیسر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تنزانیہ کے دیہی علاقوں میں تعلیم برائے پائیدار ترقی کے بارے میں شعور نہیں پایا جاتا ہے۔ اس لیے اسکولوں، یونیورسٹیوں اور اساتذہ میں اس کے متعلق آگہی پیدا کرنے کا کام سب سے زیادہ ضروری ہے۔ مگرعورتوں کے اندر بھی اس بارے میں شعور پیدا کرنا نا گزیر ہے۔
مصر کی الیکزنڈریا یونیورسٹی کے شعبہ علوم ماحولیات کی سربراہ پروفیسربورشہ سلیم کو اپنے ملک کی ترقی کی رفتار سے خاصہ اطمینان ہے۔ ان کے خیال میں اس حوالے سے مصر میں صورتحال بہت بہتر ہورہی ہے۔ اب عورتیں تعلیم برائے پائیدار ترقی کی فیصلہ سازی میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ عورتیں حکومت اورکابینہ میں بھی کام کر رہی ہیں۔ ان خیال میں آنے والی دہائی میں مذید بہتری آئے گی۔
بورشہ بون کی کانفرنس میں قدرتی ذخائرکے استعمال سے متعلق ایک مصری پروجیکٹ لانچ کرنے کے لئے آئی تھیں انہیں اس کانفرنس میں آکر بہت اچھا محسوس ہوا۔ پائیدارترقی کا بنیادی مقصد ہے کہ سب مل جل کر کام کریں، ایک دوسرے کا احترام کریں اور سب اپنے کاموں میں پوری دلچسپی لیں۔ یہ ایک بہت اہم پیغام ہے کہ اکیلے کام کرنے سے کچھ حاصل نہیں۔
UNESCO کے زیر اہتمام اس کانفرنس میں عرب ممالک کے متعدد وفود شامل تھے جن میں خواتین کی تعداد قابل ذکرتھا۔ سب سے بڑا وفد عمان کا تھا جس میں آدھی سے زیادہ خواتین تھیں۔ اس کی سربراہی عمان نیشنل کمیشن فار ایجوکیشن کلچر اینڈ سائنس کی سیکریٹری جنرل مدیحہ الشیبانی بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ عمان میں تعلیم کا بنیادی فلسفہ پائیدار ترقی پر زور دیتا ہے چاہے وہ ماحولیاتی تحفظ ہو یا پھر بین الثقافتی مذاکرات بہت سے پائیدار ترقی اور تعلیمی منصوبے ہیں جن پر عمل درآمد ہوا ہے۔
یونیسکو کی عالمی کانفرنس کے موقع پر تمام دنیا سے آئے ہوئے وفود کے ساتھ براہ راست بات چیت کو مدیحہ نے ایک نادر موقع قراردیا۔ وہ کہتی ہیں کہ مسلم معاشرے کی عورتوں کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور یہی بنیادی مقصد ہے ایسے بین الثقافتی پلیٹ فارم کا۔ مغرب میں ترقی پذیر ممالک اور بلخصوص مسلم خواتین کے بارے میں جو تائثر ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ ہمارے وفد کا تقریباٍ نصف حصہ عورتوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سیاسی، ثقافتی اور معاشی شعبوں میں اعلی عہدوں پرفائز خواتین شامل ہیں اورعمان میں عورتیں بہت سی مختلف برادریوں میں رضاکارانہ طور پر بھی کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کو اس امر کا انداذہ ہوجانا چاہئے کہ اس دہائی میں مشرقی اور دیگرمسلم خواتین کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے بارے میں اس قسم کے خیالات نہیں رکھے جا سکتے۔ ان کا تجربہ ہے کہ مذہب اور ثقافت کبھی بھی کچھ پانے یا حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ مگر وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ مغرب اور بقیہ دنیا کے اشتراک عمل سے اسطرح کے مزید پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اکھٹا ہو ا جا سکے۔
عمان کی نیشنل کمیشن فار ایجوکیشن اینڈ سائنس کی سیکریٹری جنرل نے مزید بتایا کہ جرمنی اورعمان کے مابین طالب علموں کے تبادلے کا ایک باقائدہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس سے نہ صرف پائیدار ترقی کے لئے دونوں طرف کے طالب علموں کو تعلیم اور تربیت دینے میں مدد مل رہی ہے بلکہ بین الثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے دونوں معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے میں بہت مدد مل رہی ہے۔