یوکرائن میں جنگ بندی کے دو سال بعد بھی تنازعہ بدستور قائم
11 فروری 2017دو سال قبل 11 فروری کو فرانسیسی، روسی، اور یوکرائنی صدور اور جرمن چانسلر کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد یوکرائنی بحران کے حل کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو کے درمیان منسک معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے پر تنازعے کے حل کے لیے شامل روڈ میپ پر روس نواز باغیوں نے بھی دستخط کیے تھے
یہ معاہدہ ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تنازعے کی شدت کی وجہ سے پیدا شدہ صورتِ حال کھلی جنگ کو ہوا دے رہی تھی۔ کیف حکومت نے کریملن پر خفیہ طور پر ہزاروں فوجی بھیجنے کا الزام عائد کیا تھا۔ منسک معاہدے نے ایک وسیع تر جنگ کے خدشات کو لگام ضرور پہنائی لیکن تشدد ختم نہیں ہو سکا اور فریقین کے مابین گہری بد اعتمادی کا خاتمہ بھی نہیں ہوا اور یہی تنازعے کے پائیدار سیاسی حل کی راہ میں رکاوٹ ڈالے ہوئے ہیں۔
آج اس تنازعے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 10،000 سے زائد ہو چکی ہے اور مشرقی یوکرائن میں کوئلے اور فولاد کی پیداوار پر خود ساختہ ’عوامی جمہوریہ‘ کہلانے والے علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کا قبضہ ہے۔ ماسکو کے خلاف مغربی اقتصادی پابندیاں بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔
کیف میں تعینات ایک مغربی سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے کو بتایا ،’’ بحران کے حل نہ ہونے میں سبھی فریقین قصور وار ہیں اور سیاسی عزم کا فقدان بھی ہے۔‘‘ مغربی دنیا کو اس بات کا یقین ہے کہ مشرقی یوکرائن کے تنازعے کو روس نے جنم دیا اور اب بھی اسے بھڑکائے رکھنے کی کوشش میں ہے، تاہم کیف حکومت کو بھی معاہدے کی شرائط کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔
منسک معاہدہ یوکرائن اور روس کے صدور کے درمیان قریب اٹھارہ گھنٹے کے طویل مذاکرات کے بعد جرمنی اور فرانس کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے میں علیحدہ سے ایک تیرہ نکاتی منصوبہ پیش کیا گیا تھا جس میں ایک جامع اور فوری جنگ بندی اور اگلے محاذوں سے بھاری اسلحے کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
معاہدے کی رو سے کیف حکومت کو روس کی سرحد کے ساتھ ساتھ تمام علاقے پر کنٹرول ان شرائط پر دیا گیا تھا کہ یوکرائن کی حکومت روس کے قریب واقع علیحدگی پسند علاقوں کو خصوصی حیثیت دینے اور ایک عبوری مقامی حکومت کے قیام کے لیے سن 2015 کے اختتام تک اپنے آئین میں ترمیم کرے گی۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی شرط کو بھی پورا نہیں کیا گیا اور مہلت کو بار بار بڑھایا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے پاس 33 ماہ سے جاری اس تنازعے کے خاتمے کے لیے یہی واحد امید ہے۔