یوکرائن کا سیاسی عدم استحکام: ملک کے نیوکلیئر ری ایکٹرز کے لیے خطرہ
11 جون 2014مشرقی یوکرائن جہاں ایک طرف سیاسی عدم استحکام اور مسلح جھڑپوں کی زد میں ہے وہاں اس علاقے کے ہزاروں باشندوں کو پانی کی ٹوٹی ہوئی پائپ لائن کے سبب شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جرمن ماہرین اس مسئلے کے تناظر میں ملک کے نیوکلیئر پلانٹس کے تحفظ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرائن کے ایٹمی ری ایکٹرز جدید جوہری تنصیبات کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں اس لیے یہ ملک سیاسی اور سماجی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
یوکرائن میں سابق سویت یونین کے دور میں تعمیر ہونے والے 15 نیوکلیئر ری ایکٹرز موجود ہیں۔ اسی ملک میں دنیا کا بدترین جوہری حادثہ پیش آ چُکا ہے۔ جرمن ماہرین نے یوکرائن کے موجودہ سیاسی بحران اور مشرقی یوکرائن میں جاری مسلح تنازعے کو ملک کی جوہری تنصیبات کی سلامتی کے لیے نہایت خطرناک قرار دیا ہے۔
’جرمن ری ایکٹر سیفٹی کمیشن‘ کے چیئرمین میشائیل زیلر نے ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا،" جب آپ ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کو فعال بنانے کا فیصلہ کریں یا یوکرائن میں جس طرح کے ری ایکٹر پارک کا معاملہ ہے، تو آپ کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ ملک سماجی عدم استحکام کا شکار نہیں ہونا چاہیےاور جنگ کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہونا چاہیے" ۔
انسانی غلطیوں کا احتمال
میشائیل زیلر جرمن شہر فرائی برگ میں قائم ماحولیاتی امور سے متعلق ایک تھنک ٹینک سے بھی وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم جوہری تنصیبات کی بات کررہے ہیں، اگر یہ بہت مہارت سے بھی تعمیر کیے جائیں تب بھی ان سے بہت زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جہاں تک یوکرائن کا تعلق ہے، وہاں کے پاور پلانٹس دیگر علاقوں کی جوہری تنصیبات سے کہیں زیادہ کمزور ہیں اور یوکرائن کے پاور پلانٹس میں غلطیوں کے سبب رونما ہونے والے حادثات کے امکانات بھی کہیں زیادہ ہیں۔ ان کی سکیورٹی کی صورتحال بھی کافی تشویش ناک ہے" ۔
یوکرائن کے موجودہ پاور پلانٹس
یوکرائن میں اس وقت چار ایٹمی پلانٹس اور 15 ری ایکٹرز موجود ہیں۔ انہی سے ملک کی کُل توانائی کی ضرورت کا قریب نصب حصہ پورا ہوتا ہے۔ اس طرح عملی طور پر کسی بحران یا جنگ کی حالت میں بھی ان ری ایکٹرز کو بند کرنا ناممکن ہے۔ یہ تمام ری ایکٹرز سوویت دور کے ہیں۔ انہوں نے 1980 ء کے عشرے میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ ان ہی میں سے ایک چرنوبیل ری ایکٹر بھی ہے جس میں 1986 ء میں ایک دھماکے سے آگ لگنے کے باعث تابکاری فضا میں پھیلنے کے نتیجے میں متعدد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں اور اس کے اثرات اس حد تک خوفناک تھے کہ اب بھی اس علاقے اور اس کے گرد و نواح میں آباد شہریوں کو کینسر، مختلف اقسام کی جسمانی معذوری اور مہلک قسم کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ چرنوبیل کے واقعے کو تاریخ کا بھیانک ترین اور جانی اور مالی نقصان کے اعتبار سے بدترین جوہری سانحہ قرار دیا جاتا ہے۔
یوکرائن کے حالیہ تنازعے کے تناظر میں اس ملک کے سب سے بڑے ایٹمی پلانٹ ’سافوریژیا‘ کے تحفظ کے بارے میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ ڈونیٹسک سے کوئی 200 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہے۔ یہی وہ علاقہ جو روس نواز باغیوں اور کییف حکومت کے مابین مسلح جھڑپوں کا گڑھ بن چُکا ہے۔
سبوتاژ کے خطرات
ماہرین یوکرائن کے ایٹمی پاور پلانٹس کی دیکھ بھال اور اُس کے بنیادی تکنیکی ڈھانچے کی معیاری تعمیر ہی نہیں بلکہ ملک میں سلامتی کی مجموعی صورتحال کے بارے میں بھی تشویش رکھتے ہیں۔ مشرقی یوکرائن میں باغیوں اور حکومتی فورسز کے مابین جاری مسلح جھڑپوں اور روس نواز فورسز کی طرف سے مختلف علاقوں پر ہونے والے قبضے اس امر کا ثبوت ہیں کہ نہایت حساس علاقے بھی اس وقت محفوظ نہیں ہیں۔ لوتھر ہان جرمنی کی جوہری تنصیبات کی سلامتی سے متعلق ایک ریسرچ سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں،" آپ کو کسی فوج کی ضرورت نہیں، 20 سے 30 تربیت یافتہ افراد نیوکلیئر تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ان چیزوں کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے"۔