یوکرین: فرار ہونے والے پالتو جانور قرنطینہ میں
26 مارچ 2022جنگ سے نہ صرف لاکھوں انسان بلکہ بڑی تعداد میں جانور بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یورپ کو درپیش حالیہ بحران، یوکرین میں جنگ تمام یورپی باشندوں کو متاثر کر رہی ہے۔ جنگ زدہ ملک یوکرین سے فرار ہونے والے باشندوں کی تعداد میں روزانہ کی بنیادوں پر اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ یوکرینی باشندے فرار ہو کر پولینڈ پہنچیں ہیں۔ دیگر ممالک، جن کی سرحدیں یوکرین سے ملتی ہیں، کی طرف بھی پناہ کے متلاشی یوکرینی باشندوں کا سیلاب رواں ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد جرمنی پہنچ چُکے ہیں اور ان کی آمد کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ملک سے فرار ہونے والے ان یوکرینی باشندوں کے ساتھ ایک بڑی تعداد میں ان کے پالتو جانور بھی جرمنی پہنچ چُکے ہیں۔ اندازوں کے مطابق اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں کبھی بھی جانور جرمنی نہیں پہنچے تھے۔ ان میں کتے، بلیاں یہاں تک کہ ریچھ بھی شامل ہیں۔
پالتو جانوروں کا جرمنی میں خیر مقدم
یوکرین کی جنگ سے فرار ہو کر جرمنی پہنچنے والے 'تارکین وطن جانوروں‘ کے استقبال پر سب سے پہلے انہیں 'ریبیز ویکسینیشن‘ یا ریبیز کے خلاف شاٹ‘ یا انجیکشن‘دیا جاتا ہے۔چوبیس گھنٹوں کے اندر مزید ایک لاکھ سے زائد یوکرینی ملک چھوڑنے پر مجبور
لُونا 'جیک رسل ٹیریر‘ نسل سے تعلق رکھنا والا ایک چھوٹا کتا ہے۔ دو ہفتوں پر محیط اپنے فرار کی داستان شاید یہ کتا بھی نہ بھول پائے۔ 21 سالہ اڈانا اسے اپنی آغوش میں لیے دو ہفتے تک ایک سے دوسری جگہ پناہ کی تلاش میں پھرتی رہی۔ یوکرین میں جنگ زدہ اور گنجان آبادی والے شہر خارکیف سے ٹرین کے ذریعے پہلے پولینڈ، پھر جرمن شہر ہیننور اور بالآخر مغربی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر کولون پہنچا۔ مفرور یوکرینی باشندوں سے کھچا کھچ بھری ٹرین میں اڈانا اپنے کتے ' لونا‘ کو جس ڈبے میں سوار تھا اُسی ڈبے میں برابر والی ایک میز پر ایک ملائم سے کپڑے میں بلی کے چار نو زائیدہ بچے لپٹے ہوئے تھے۔ انہیں بھی اپنی بقا کا خوف تھا۔
اب لونا کولون شہر کے شمال میں واقع ایک اپارٹمنٹ میں دوڑتا بھاگتا طوفان برپا کرتا نظر آ رہا ہے۔ لونا ابھی چھ ماہ کا ہے۔ بظاہر ایک پالتو کتا لیکن اپنی مالکہ اڈانا کے لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے، جو اپنی ماں اور دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ یوکرین سے بھاگی تھی۔ اڈانا کے لیے اُس کا کتا لُونا امید کی کرن، تاریک وقتوں میں اُس کا ساتھی اور اس کی لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اڈانا کہتی ہے،''جب ہم بہت اداس ہو جاتے ہیں تو لُونا سے کھیلتے ہیں۔ یہ ہم سب کو بہت قریب کر دیتا ہے، یہ ہمیں جذباتی طور پر مضبوط کر دیتا ہے۔ اپنے احساسات اور جذبات پر قابو رکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‘‘ٹرکوں سے چھلانگ لگا کر، برطانیہ پہنچنے کی کوشش: تارکین وطن کا کیا بنے گا؟
پالتو جانور اپنے مالکین سے جدا
جرمنی پہنچنے والے پالتو جانوروں کو ان کے پالنے والوں یا مالکین سے جدا کیا جا رہا ہے جس کی وجہ جانوروں سے پھیلنے والا وائرس 'ریبیز‘ ہے۔ ریبیز انسانی اور دیگر ممالیہ کے دماغ پر حملہ کرنے اور سوزش پیدا کرنے والا وائرس ہے۔ اس کی اولین علامت بخار اور کپکی یا جسم میں بے چینی ہوتی ہے جس کے بعد اُبکائی ، متلی، بے قابو ہیجان، پانی سے خوف، جسم کے اعضاء کی حرکت بند ہو جانا اور بے حوشی تک ہو سکتی ہے۔ پالتو جانوروں کے ساتھ جرمنی پہنچنے والے تمام پناہ گزینوں کو اڈانا کی طرح کی رہائش میسر نہیں ہوتی بلکہ بہت سے پناہ گزین گھرانوں کو مشترکہ پناہ گاہوں میں سر چھپانے کی جگہ مل رہی ہے اور ان کے پالتو جانوروں کو لازمی طور پر 'جانوروں کے مراکز‘ بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ پناہ گزین کیمپوں یا مراز میں پالتو جانوروں کو ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یوکرین کا شمار اب تک ' ریبیز فری‘ ممالک میں نہیں ہوتا ہے۔ اب پناہ گزینوں کے پالتو جانوروں کی بڑی تعداد جرمنی پر بہت بڑا بوجھ بن رہی ہے۔ مراکز میں جانوروں کو ٹیکے لگائے جا رہے ہیں اور انہیں قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے۔ اس طرح تاریکن وطن جانوروں کو تو تحفظ فراہم ہو رہا ہے مگر ان کا اپنے مالکین سے جدا کر دیا جانا اُن پناہ گزین بچوں کے لیے ایک نئے اور اضافی صدمے کا سبب ہے جو اپنا ملک تو چھوڑ آئے ملگ اپنا پالتو جانور اپنے ساتھ لا رہے ہیں اور انہیں اپنا غمخوار اور امید کی کرن سمجھتے ہیں۔ پہلے اپنا ملک ترک کرنے کا دکھ پھر اپنے مالکین سے جدا ہونے والے پالتو جانوروں سے جدائی۔ دوہرا صدمہ ہے انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے۔
برطانیہ میں پناہ کے متلاشی افراد کے لیے پالیسی میں سختی
تین ریچھوں کو جرمن شہریت مل گئی
یوکرین میں جانوروں کی پناہ گاہوں میں عام طور پر صرف کتے اور بلیاں رہ سکتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن چار ٹانگوں والے جانوروں کا کیا کیا جائے جو پالتو نہیں ہوتے۔ 100 کلو گرام سے زائد وزنی ریچھ بھی یوکرین کی جنگ میں پھنسے تھے تاہم جرمنی کی جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ' فیئر فورٹن‘ جس کا مطالب ہے ' چار پنچے‘ کی وائلڈ لائف پروجیکٹ کوآرڈینیٹر ماگڈیلینا شرک ٹرٹین نے بتایا،'' ہم جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یوکرین میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں تھے اور ہم بہت خوفزدہ تھے کہ ان جانوروں کو کچھ ہو نہ جائے۔ ہم نے انہیں شہر لیوو کے قریب اپنی پناہ گاہ میں منتقل کیا۔ ‘‘ ریچھ کے سات نو زائیدہ بچوں میں سے تین جرمنی لائے جا چُکے ہیں۔
یوکرین بحران: لاکھوں یوکرینی بچوں کو شدید خطرات کا سامنا
اولیوور پیپر/ ک م/ ع س