1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

یوکرین کی لڑائی میں اب تک کتنے فوجی ہلاک ہو چکے ہیں؟

16 اپریل 2022

روس نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھیں گے تو اس کے ’غیر متوقع نتائج‘ نکل سکتے ہیں۔ ادھر یوکرین کا کہنا ہے کہ ماسکو اسے جوہری ہتھیاروں سے نشانہ بنا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4A18Y
Ukraine Zeremonie für gefallenen Soldaten  in Starychi
تصویر: Alexander Nemenov/Getty Images/AFP

یوکرین پر روسی حملے کا آج 52واں دن ہے اور اطلاعات کے مطابق مختلف علاقوں میں شدید لڑائی اب بھی جاری ہے۔ سنیچر کی صبح بھی دارالحکومت کییف اور قریبی لیویف جیسے علاقوں میں زبردست دھماکے سنے گئے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین کے بیشتر حصوں میں فضائی حملوں کے سائرن بھی بجائے گئے ہیں۔

تین ہزار کے قریب یوکرینی فوجی ہلاک

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے امریکی میڈیا ادارے سی این این سے بات چيت میں کہا ہے کہ 24 فروری کو حملے کے بعد سے اب تک اس جنگ میں 2500 سے 3000 کے درمیان یوکرینی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ زیلنسکی نے مزید کہا کہ تقریبا 10 ہزار یوکرینی فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ روس کا دعویٰ یہ ہے کہ یوکرین میں 19ہزار سے 20 ہزار کے درمیان ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

نیٹو نے مارچ کے اواخر میں ہلاکتوں سے متعلق اپنا، جو اندازہ پیش کیا تھا، اس کے مطابق اس وقت تک سات ہزار  سے 13 ہزار کے درمیان روسی فوجی ہلاک ہو چکے تھے۔ تاہم ماسکو نے حال ہی میں اسے مسترد کر دیا اور اس کا دعویٰ  ہے کہ اس تنازعے میں اب تک صرف 1350 روسی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

ایک ماہ قبل زیلنسکی نے اپنے اندازے کے مطابق کہا تھا کہ تقریبا 1300 یوکرینی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے دونوں بار یہ دعویٰ بھی کیا کہ یوکرین سے کہیں زیادہ روسی فوجی مارے گئے ہیں۔ ان ہلاکتوں میں عام شہریوں کی تعداد کو شامل نہیں کیا گيا ہے۔

تنازعے کے دونوں فریق ایک دوسرے کو پہنچنے والے جانی نقصان کے بارے میں الگ الگ دعوے کرتے رہے ہیں، جو عام طور پر اپنے مخالف کی سرکاری تعداد سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔

Russland Ukraine Konflikt I  Dnipro, Dnipropetrovsk
تصویر: Rodrigo Abd/AP/picture alliance

روس کی تنبیہ

ادھر روس نے امریکہ اور اس کے دیگر مغربی اتحادیوں کو یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے خلاف متنبہ کیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں روسی سفارت خانے نے ایک مکتوب کی شکل میں باضابطہ طور پر یہ تنبیہ امریکی حکام کو بھیجی ہے۔

روسی سفارت کار نے مکتوب میں خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی یوکرین تنازعے میں ’ایندھن کا کام‘ کر رہی ہے، اور اس کے ’غیر متوقع نتائج‘ بر آمد ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ منگل کو یہ مکتوب اس وقت بھیجا گیا، جب امریکہ کی جانب سے یوکرین کے لیے نئے فوجی امدادی پیکیج کی بات ہو رہی تھی۔ اس کے محض چند گھنٹے بعد ہی صدر بائیڈن نے 800 ملین ڈالر کی فوجی امدادی کھیپ کی منظوری دی تھی۔

روس کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا اندیشہ

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ انہیں اب اس بات کا خدشہ ہے کہ روس یوکرین کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ سی این این نے ان سے جب یہ سوال پو چھا کہ حال میں سی آئی اے کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ روس یوکرین کے خلاف ٹیکٹیکل طور پر جوہری ہتھیار بھی استعمال کر سکتا ہے، تو کیا اس سے وہ فکر مند نہیں ہیں؟

اس پر انہوں نے کہا، ’’صرف مجھے ہی نہیں، پوری دنیا کو فکر ہے، تمام ممالک کو پریشان ہونا چاہیے کیونکہ یہ محض حقیقی معلومات ہی نہیں ہیں، بلکہ ایک حقیقت ہو سکتی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں سوچنا یہ چاہیے کہ ہمیں ڈرنا نہیں ہے، ڈرنا نہیں بلکہ تیار رہنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’لیکن یہ سوال صرف یوکرین کے لیے نہیں ہے، صرف یوکرین کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہے میرے خیال سے۔‘‘

Ukraine-Krieg Lwiw | Trauer um gefallene Soldaten
تصویر: Mykola Tys/Zuma/IMAGO

جنگ کے خاتمے کی پیش گوئی مشکل ہے

صدر زیلنسکی نے رات کے وقت قوم سے اپنے تازہ ترین خطاب میں کہا کہ یہ پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ آخر جنگ کب تک چلے گی؟ انہوں نے کہا، ’’یقیناً میں بھی مختلف پیشین گوئیاں سنتا ہوں۔ میرے پاس روسی فوج کے ارادوں اور صلاحیتوں کے بارے میں میڈیا اداروں سے کہیں زیادہ معلومات ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ’’روسی معیشت کی صلاحیت اور روس میں معاشرے کی جذباتی حالت کی کیفت کیا ہوتی ہے؟‘‘ یہی دو عوامل تنازعے کی مدت کا تعین کریں گے۔

ان کا کہنا تھا، ’’میدان جنگ میں ہماری فوج کی کامیابی واقعی اہم ہے۔ تاریخی طور پر اہم ہے۔ لیکن یہ ہماری زمین کو قابضین سے پاک کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ہم انہیں مزید شکست دیں گے۔‘‘

ص ز / ا ا  (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز) 

روسی فوج کے لیے ایک دھچکا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید