یوکرینی علاقوں کاغیر قانونی الحاق، روس کوعالمی مذمت کا سامنا
1 اکتوبر 2022جمعے کے روز روس کی طرف سے یوکرین کے چار علاقوں کو الحاق کا اعلان کیے جانے کے ساتھ ہی اس اقدام کی مذمت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یوکرین کے قریبی حامی اس حوالے سے پہلے ہی اپنا موقف واضح کرچکے تھے۔
یورپی یونین نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے روس کے اس اقدام کی اسی وقت مذمت کردی تھی جب الحاق سے متعلق روسی صدر ولادیمیر پوتن کا خطاب ابھی جاری تھا۔
27 ممالک پر مشتمل اس گروپ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، ''ہم اس غیر قانونی 'ریفرنڈم‘ کو نہ تو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی کبھی تسلیم کریں گے، جسے روس نے یوکرین کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی مزید خلاف ورزی کے لیے بہانہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اور نہ ہی اس ریفرنڈم کے غلط اور غیر قانونی نتائج کو تسلیم کریں گے۔
مزید چار یوکرینی علاقوں کا روس میں باقاعدہ انضمام کل جمعے کو
روس کا یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کے الحاق کا اعلان جلد متوقع
نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ زمین کا ایک'' غیر قانونی اور ناجائز قبضہ‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا، ''دوسری عالمی جنگ کے بعد طاقت کے ذریعے یورپی سرزمین پر قبضے کی یہ سب سے بڑی کوشش ہے۔‘‘
روس کے خلاف مزید پابندیاں
یورپی یونین نے روس پر پابندیوں کے اپنے اگلے منصوبہ بند پیکج کے بارے میں بتانے سے انکار کر دیا جو کہ فی الحال زیر غور ہے، تاہم کہا کہ''وہ روس کے غیر قانونی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی پابندیوں کو مضبوط بنانے کے عزم‘‘پر قائم ہے۔
نئے تعزیری اقدامات میں روسی مصنوعات کی درآمد پر مزید پابندیاں، فوج کے لیے استعمال ہونے والی کلیدی ٹیکنالوجی پر برآمدی پابندی، تیل کی قیمت کی حد کے لیے قانونی بنیاد اور یورپی یونین کے شہریوں پر روسی سرکاری کمپنیوں کی گورننگ باڈیز میں شرکت پر پابندی شامل ہو سکتی ہے۔
امریکہ نے جمعہ کو فوری طور پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا۔ صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ یوکرین کی سرحدوں کو دوبارہ تشکیل دینے کی ''غیر قانونی کوششوں‘‘ کی حمایت کرنے والے ''افراد اور اداروں‘‘ کو، واشنگٹن اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر، سزا دے گا۔‘‘ بائیڈن نے کہا،''کوئی غلطی نہ کریں: ان اقدامات کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘
سات دن میں چھیاسٹھ ہزار روسی شہری یورپی یونین میں داخل
فوج میں جبری بھرتی سے خوفزدہ روسی شہری فرار ہونے لگے
برطانیہ نے بھی فوری جوابی اقدامات کا اعلان کیا۔ برطانیہ کے دفتر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق، ماسکو آئی ٹی کنسلٹنسی، فن تعمیر اور انجینئرنگ جیسی خدمات تک رسائی سے محروم ہو جائے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ لندن ''روس کی صنعتی اور تکنیکی صلاحیتوں کے لیے اہم‘‘ سینکڑوں اشیا کی برآمد پر بھی پابندی لگائے گا۔
وزیر اعظم لز ٹرس نے جمعہ کو ٹویٹ کیا تھا کہ لندن ''پوٹن کی جنگی مشین کو ناکارہ بنانے کے لیے مزید پابندیاں عائد کرنے سمیت مزید کارروائی کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔‘‘
عالمی مذمت
جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے کہا کہ ٹوکیو ''روس کی جانب سے یوکرین کے علاقوں کو 'ضم' کرنےکی شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، اور اسے کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
روس سمیت 57 ریاستوں کی بین الحکومتی سکیورٹی تنظیم، یورپ میں سیکورٹی تعاون کی تنظیم(OSCE)کے سرکردہ عہدیداروں نے بھی خود مختار یوکرینی علاقے کے غیر قانونی الحاق کی مذمت کی۔
تنظیم کے موجودہ چیئرمین پولینڈ کے وزیرخارجہ بگینیو راو نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا''آج اعلان کردہ قدم بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں، OSCE کے اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘‘
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ کییف نے نیٹو کی رکنیت کے حصول کے لیے اپنا راستہ طے کرلیا ہے اور آج وہ باضابطہ رکن بنانے کے لیے درخواست دے رہا ہے۔
گوکہ نیٹو ممالک یوکرین کی فوج کو بھاری ہتھیاروں سے مسلح کررہے ہیں تاہم نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی کییف کی خواہش مشکل ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اسے تمام 30 اراکین کی حمایت ضروری ہوگی۔
نیٹو کے اتحادی بیرونی حملے کی صورت میں ایک دوسرے کے دفاع کے لیے ساتھ دینے کے پابند ہیں، اس لیے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنا نیٹو اور روس کے درمیان بڑے تناؤ کا سبب بن سکتا ہے۔
ایلا جوائنر، برسلز (ج ا / ش ر)