1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرینی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان

عبدالستار، اسلام آباد
20 جولائی 2023

روس اور یوکرین میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور ایک ایسے موقع پہ یوکرینی وزیر خارجہ دیمترو کولیبا پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں، جو پاکستان کے کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔

https://p.dw.com/p/4UBck
Pakistan Ukrainischer Außenminister Dmytro Kuleba in Islamabad
تصویر: Ministry of Foreign Affairs/REUTERS

1993 میں یوکرین سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد کسی یوکرینی وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔ اسی لیے اس دورے کے مقاصد، اس کی ٹائمنگ اور اس کے اثرات پر ملک کے کئی حلقوں میں بحث ہو رہی ہے۔

یوکرینی جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں میں اضافہ

پاکستان کے مفادات روس سے جڑے ہوئے ہیں، عمران خان

وزراء کے بیانات

یوکرینی وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے اپنے ہم منصب بلاول بھٹو زرداری سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ اس موقع پر پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے یوکرینی ہم منصب سے یوکرین کی صورتحال پر بات کی اور موجودہ صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو نے یوکرین میں جانی اور مالی نقصان پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کے معاشی چیلنجوں کے باوجود اسلام آباد نے یوکرین میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد بھیجی۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہمارے خیال میں طویل تنازعات سے شہریوں کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یوکرین اور روس میں امن ہو جائے اور امن کے ثمرات ان کی عوام کو ملیں۔

 بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی گفتگو میں یوکرین کے تنازعے کے پرامن حل کی اہمیت پر زور دیا اور اس بات کو واضح کیا کہ کیونکہ یوکرین کی جنگ سے ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان کے لیے بہت ساری مشکلات پیدا ہوئی ہیں، اس لیے پاکستان امن کی کوششوں میں ایک اسٹیک ہولڈر ہے۔

اس موقع پہ یوکرینی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہدو طرفہ تعلقات کے میکنزم کو مضبوط کیا جائے اور یہ کہ دونوں ممالک یوکرین پاکستانی کمیشن برائے معاشی تعاون کے افتتاحی  اجلاس کو بھی منعقد کریں۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین پاکستان کو اپنا ایک پارٹنر سمجھتا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کرنا چاہتا ہے، خصوصا فوڈ سیکیورٹی کے شعبے میں۔

 یوکرینی وزیر خارجہ نے بحیرہ اسود غذائی پروگرام کے حوالے سے کہا کہ اس میں سے روس نکل گیا ہے، جس سے  گلوبل فوڈ سیکیورٹی کو مسائل لاحق ہوں گے اورعالمی مارکیٹ میں غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔

دورے کے اثرات

تاہم سفارتی لب و لہجے سے دور بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس دورے کے خطے کے حالات پاکستان کے خطے کے ممالک سے تعلقات اور ممکنہ طور پر سی پیک پر اثرات ہوں گے۔

کراچی یونیورسٹی کی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا ہے کہ 1993 کے بعد کسی یوکرینی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب یوکرین روس کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں بہت سارے سوالات کو جنم دے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لوگ اس کی ٹائمنگ پہ سوالات کریں گے اور اس دورے کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے اور یہ خیال کیا جائے گا کہ پاکستان ایک بار پھر مغربی کیمپ میں جا رہا ہے اور ایسا لگے گا کہ آئی ایم ایف نے جو حال ہی میں ہماری مدد کی ہے، ہم نے اس کا مثبت رد عمل دکھانے کے لیے یوکرینی وزیر خارجہ کے اس دورے کا اہتمام کیا ہے۔‘‘

روس اور چین کا ردعمل

 ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کے مطابق ماسکو اور بیجنگ میں اس دورے پر سخت ناراضی ظاہر کی جائے گی جبکہ چین، روس، ایران اور خطے کے دوسرے ممالک خطے کو ایک اکائی بنانے کی جو کوششیں کر رہے تھے ان کوششوں کو بھی دھچکا لگے گا۔

 ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا دعویٰ تھا کہ اس سے سی پیک کا کام بھی متاثر ہوگا۔ ''کیونکہ امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان روس، چین اور خطے کے ممالک سے دور ہو۔ ابھی کچھ ہی مہینوں پہلے ہم روس سے سستے تیل کی بات کر رہے تھے اور اب ہم نے اچانک یوکرینی وزیر خارجہ کو بلا لیا ہے۔ تو اس کی وجہ سے روس، چین اور خطے کے دوسرے ممالک پاکستان پر اعتبار کرنے سے ہچکچائیں گے۔‘‘

روس یوکرین جنگ سے متاثرہ پاکستانی طلباء اسپین میں

غیر جانبداری پر سوالات

 طلعت عائشہ وزارت کے مطابق یہ تاثر اب دم توڑ جائے گا کہ پاکستان یوکرین کی جنگ میں غیر جانبدار ہے۔ '' جنرل باجوہ نے اپنے ریٹائرمنٹ سے پہلے روسی حملے کو جارحیت قرار دے دیا تھا اور اب پاکستان نے یوکرینی وزیر خارجہ کو جنگ کے دوران دعوت دے کر کے یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ  پاکستان یوکرین کے مسئلے پر وہ ہی پوزیشن اپنا رہا ہے، جو مغربی ممالک اور امریکہ نے اپنائی ہے۔‘‘

یوکرین پر پاکستان محتاط ہے

 کئی مبصرین کے خیال میں پاکستان کی پوزیشن یوکرین کی جنگ کے حوالے سے دانشمندانہ ہے۔ پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ اورہڈسن انسٹیٹیوٹ کے معروف اسکالر حسین حقانی کا کہنا ہے حالانکہ پاکستان نے یوکرین کو ہتھیار بیچے ہیں، جس سے وہ ماضی میں ہتھیار بھی خریدتا رہا ہے، لیکن وہ کھلم کھلا  اس جنگ میں کوئی پوزیشن لینا نہیں چاہتا۔ حسین حقانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان کو یہ معلوم ہے کہ یہ ہتھیار روس کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں لیکن یوکرین پاکستان تعلقات پر اسلام اباد روس اور چین کے رد عمل پر کوئی زیادہ فکر مند نہیں ہے کیونکہ ان ممالک سے اس کے تعلقات کثیر الجہتی ہیں۔‘‘

مغرب سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش

حسین حقانی کے خیال میں پاکستان کی گونا گو مسائل کی وجہ سے اب دنیا کی توجہ اس پر کچھ زیادہ نہیں ہے۔ ''اس لیے پاکستان کی قیادت خصوصا پاکستانی ملٹری چاہتی ہے کہ مغرب سے تعلقات دوبارہ بہتر کیے جائیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو مغرب اور امریکہ سے بھی اچھے تعلقات قائم کرنے چاہیے جو پاکستانی مصنوعات کے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہے اور چین  سے بھی بہتر تعلقات استوار رکھنے چاہیے۔‘‘