یہ آپ کی ماں، بہن اور بیٹی بھی تو ہو سکتی ہے!
10 جون 2020بلوچستان میں آٹھ جون کو جبری طور پر لاپتہ افراد کے لیے منائے گئے دن کے بارے میں کوئٹہ سے ہماری بلاگر ساتھی رابعہ بگٹی کا بلاگ چھاپتے ہوئے ٹویٹر پر اس ایونٹ کے بارے میں نظر ڈالی تو دو ٹویٹس جیسے حافظے سے چپک ہی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک ٹویٹ میں دو تصاویر ہیں تو دوسری میں ایک ویڈیو۔
پہلی ٹویٹ میں موجود پہلی تصویر ایک بہن کی ہے، جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور وہ جس رنج و الم اور دکھ سے گزر رہی ہے وہ اس ایک لمحے میں اچھی طرح محسوس کیا جا سکتا ہے جسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا ہے۔ اسی ٹویٹ میں دوسری تصویر ایک ماں کی ہے، جس نے ہاتھ میں اپنے جوان بیٹے کی تصویر پکڑ رکھی ہے، جھکی ہوئی آنکھیں آنسوؤں سے تو عاری ہیں مگر ان میں موجود کرب تصویر دل چیرے دیتا ہے۔ بظاہر گم صم اور درد و الم کی تصویر بنی اس ماں کے دل و دماغ میں کیا طوفان برپا ہوں گے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اس طرح کی تصویریں اور ویڈیوز ہمارے لیے محض خبریں ہی ہوتی ہیں۔ روز ہی ایسی خبریں، تصاویر اور ویڈیوز بڑی تعداد میں نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں۔ ان کے بارے میں چند سطریں لکھنا اور انہیں خبروں اور رپورٹوں کی شکل دے کر نشر یا شائع کر دینا روز مرہ کے کام اور مصروفیت سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر شاید ہماری زندگی ہمارے لیے خود عذاب ہو جائے۔
مگر یہ دو تصاویر چاہنے کے باوجود میرے شعور اور یاد سے محو نہیں ہو رہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر مجھے اپنی بہنوں اور ماں کا خیال آ گیا، وہ بہنیں جن کے ساتھ بچپن گزارا اور ساتھ کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے اور وہ ماں جس کی محبت بھری آغوش ہمیشہ ٹھنڈی چھاؤں بنی رہی۔ یہ تصاویر دیکھ کر مجھے لگا جیسے میں ہی اس لرزتے ہاتھوں والی لڑکی کا لاپتہ بھائی ہوں اور میں ہی ویران آنکھوں والی ماں کا گمشدہ بیٹا ہوں۔ اور یہ میری ہی بہن اور ماں ہیں جو ایک ایسے معاشرے میں سڑک کنارے احتجاج کر رہی ہیں جہاں خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس احساس نے جیسے میرا دل چیر کر رکھ دیا۔
اور پھر اس بہن کے تو ایک نہیں دو دو بھائی گم کر دیے گئے ہیں۔ اس کی یادوں میں محفوظ وہ سارے لمحے اسے کتنا دکھ دیتے ہوں گے ، جو اس نے اپنے ان بھائیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے، محبتیں لٹاتے اور سمیٹتے یا لڑتے جھگڑتے ہوئے گزارے ہوں گے۔ وہ سارے لمحے جب اس کے بھائی اس کے ناز اٹھاتے ہوں گے اور وہ پیار سے اپنے بھائیوں کے چھوٹے چھوٹے کام کرتی ہو گی۔
اس ماں نے کس ارمان سے اپنے بیٹے کو پالا ہو گا۔ کیسے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اس کی تعلیم اور دیگر اخراجات پورے کیے ہوں گے اس امید پر کہ یہ بیٹا اس معاشرے اور ملک میں اپنا نام روشن کرے گا اور جب وہ بوڑھی ہو گی جب اسے سہارے کی ضرورت ہو گی تو یہی بیٹا اس کا سہارا بنے گا۔ مگر یہ سہارا اس وقت اس سے چھین لیا گیا جب اسے اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
ساتھ ہی میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ کیا وہ لوگ یہ تصاویر اور ویڈیوز اور احتجاج نہیں دیکھتے ہوں گے جو ان نوجوانوں اور بیٹوں کو لاپتہ کرنے کا ذمہ دار ہیں۔ کیا وہ ان بہنوں اور بیٹیوں کی آنکھوں میں بھرے آنسو یا بظاہر خاموش ماؤں کی ان چیخوں کو نہیں سنتے یا محسوس کرتے ہوں گے جو اب ان کے اندر ہی گھٹ کر رہ گئی ہیں۔
انہوں نے کبھی ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی جگہ رکھ کر نہیں سوچا ہو گا کہ اگر آج وہ خود کسی کی طرف سے گم شدہ کر دیے جائیں تو ان کی اپنی ماؤں بیٹیوں اور بہنوں پر کیا گزرے گی۔
کیوں ان ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو ایک عذاب مسلسل میں مبتلا کر رکھا ہے؟ اگر ان کو مار دیا ہے تو ان بچاریوں کو بتا دو کہ جن پیاروں کی یاد میں تمھاری آنکھیں پتھرا گئی ہیں وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ تاکہ انہیں سکون تو آ سکے۔ اور اگر زندہ ہیں تو انہیں یا دیگر لواحقین کو بتاتے کیوں نہیں کہ انہوں نے کیا جرم کیا ہے؟ اور ملکی قانون کے مطابق انہیں اس جرم کی سزا دلوائیں بھلے وہ پھانسی کا پھندا ہی کیوں نہ ہو۔
اور اگر ان کی گمشدگی کے پیچھے کسی غیر ملکی ایجنسی کا ہاتھ ہے یا پھر وہ کسی اور ملک میں چلے گئے ہیں تو پھر بھی ہمارے ملک کے شہری ہوتے ہوئے ہمارے سکیورٹی اداروں کا یہ فرض اور لواحقین کا یہ حق ہے کہ ان کا کھوج لگایا جائے اور معلوم کیا جائے کہ آیا یہ لوگ کہاں ہیں اور دنیا میں ہیں یا نہیں اور پھر اصل صورتحال ان لواحقین کے سامنے لائی جائے۔
موجودہ طرز عمل سے بلوچستان میں ایک ایسی آگ بھڑک رہی ہے جس کا اگر کوئی منطقی حل نہ نکالا گیا تو یہ پھیل کر الاؤ بن جائے گی اور پھر اس میں کیا کچھ جل سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی ہمارے لیے مشکل نہیں کیونکہ ہم اس طرح کے حالات ماضی بعید اور ماضی قریب دونوں میں بھگت چکے ہیں۔