یہ ہیں محافظ: روہنگیا لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی
3 جون 2015’برنامہ‘ نیوز ایجنسی کی اسی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کوالالمپور سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ تھائی لینڈ میں واقع کیمپ کے پہریدار راتوں کو نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر کسی خفیہ مقام پر لے جاتے تھے اور پھر گروپوں کی شکل میں اُن کی آبروریزی کرتے تھے۔
’برنامہ’ نیوز ایجنسی نے یہ باتیں تھائی مہاجر کیمپ سے زندہ بچ کر آنے والی ایک روہنگیا خاتون کے حوالے سے بتائی ہیں۔ اس خاتون کے شوہر کا کہنا تھا کہ سرحد کے دوسری جانب ملائیشیا کی سرزمین پر واقع ایک قریبی کیمپ میں بھی اسی طرح کے واقعات عمل میں آئے ہیں۔
ان کیمپوں کے سابقہ باسیوں کے مطابق پہریدار کبھی کبھی ان خواتین کو کئی کئی روز تک کیمپ سے دور رکھتے تھے اور اُنہیں جنسی غلام بنائے رکھتے تھے۔ اس شوہر نے ’برنامہ‘ نیوز ایجنسی کو بتایا کہ رات کے وقت اِن نوجوان عورتوں کی چیخیں سنائی دیتی تھیں کیونکہ انہیں کیمپ کے قریب ہی واقع جگہوں پر رکھا گیا ہوتا تھا۔ حکام نے اس نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں بتائے گئے واقعات کی تصدیق نہیں کی ہے۔
اسی دوران پناہ گزینوں سے متعلقہ امور کی نگران نائب امریکی وزیر خارجہ این رچرڈ نے خطّے کے ممالک کے ایک دورے پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ کچھ خواتین نے اُنہیں اپنے ساتھ ہونے والے ’ہولناک تجربات‘ سے آگاہ کیا ہے۔
مئی کے وسط میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور پناہ گزینوں سے متعلق اداروں کے سربراہوں اور دیگر سرکردہ حکام نے بھی ایک بیان میں روہنگیا مہاجرین کی حالتِ زار کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اس بیان پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونیوس گتیریس، کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین، مہاجرت کی بین الاقومی تنظیم کے سربراہ ولیم ایل سوِنگ اور دنیا بھر میں مہاجرت اور ترقی کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے خصوصی نمائندے پیٹر سدرلینڈ نے دستخط کیے تھے۔
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ خلیج بنگال میں پناہ کے متلاشی انسانوں کو خوراک کے طور پر صرف چاول دیے جاتے ہیں اور اُنہیں جنسی زیادتی سمیت مختلف طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بیان میں بتایا گیا تھا کہ خواتین کی آبرو ریزی کی جاتی ہے، بچوں کو اُن کے کنبوں سے الگ کر دیا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ بد سلوکی کی جاتی ہے جبکہ مردوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور کشتیوں سے باہر سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔
اس بیان میں اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ 2014ء کے بعد سے اٹھاسی ہزار سے زیادہ مہاجرین نے کشتیوں کے ذریعے کسی اور ٹھکانے کی تلاش شروع کی اور یہ کہ اس سال کے پہلے تین مہینوں کے دوران ہی یہ تعداد پچیس ہزار ریکارڈ کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ سمندر کے ذریعے اس تکلیف دہ اور اذیت ناک سفر کے دوران اب تک تقریباً ایک ہزار انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔