1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہودیوں کے قتل عام میں معاونت کرنے والے کے خلاف مقدمہ

29 نومبر 2009

دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کے لئے قائم نازیوں کے ایک اذیتی کیمپ کے سابقہ محافظ 89 سالہ ڈیمیان یُک کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت پیر کے روز شروع ہو جائے گئی۔

https://p.dw.com/p/KkYG
جان ڈیمِان یُکتصویر: AP

دوسری عالمی جنگ کے دوران ہولو کاسٹ یا یہودی قتل عام کے ایک ابھی تک زندہ ملزم John Demjanjuk کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت آئندہ پیر سے جنوبی جرمن شہر میونخ کی ایک عدالت میں شروع ہو جائے گی۔ ڈیمیان یُک نامی اس سابقہ نازی ملزم پر الزام ہے کہ نازی دور میں مقبوضہ پولینڈ میں ایک ایسے اذیتی کیمپ کا محافظ تھا، جہاں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اُس نے کُل 27900 یہودیوں کے قتل میں مدد کی تھی۔ جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق، امریکہ میں یہودیوں کی ایک تحقیقی تنظیم سائمن ویزنتھال سینٹر نے ہولوکاسٹ کے ابھی تک زندہ، مبینہ مجرموں کے حوالے سے جو فہرست تیار کی تھی، اُس میں ڈیمیان یُک کا نام سرفہرست ہے۔

Marsch der Lebenden in Auschwitz
تصویر: dpa

جرمن دفتر استغاثہ کے بقول ڈیمیان یُک ماضی میں پولینڈ میں زوبی بور کے مقام پر اُس نازی اذیتی کیمپ کے محافظ رہے ہیں، جہاں کُل قریب ڈھائی لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا۔ اس کیمپ میں پہنچائے جانے والے یہودی قیدیوں کو، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے تھے، وہاں قائم گیس چیمبرز میں بند کر کے ہلاک کر دیا جاتا تھا۔

جان ڈیمیان یُک نامی ملزم کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ زوبی بور کے نازی کیمپ میں قیدیوں کو گیس چیمبرز میں دھکیلنے کا کام یہی شخص کرتا تھا، جو جنگ کے بعد کے دور میں عشروں تک امریکہ میں مقیم رہا تھا‍۔ اُسے اسی سال مئی میں، ایک طویل قانونی جنگ میں ناکام رہنے کے بعد، امریکہ سے ملک بدر کر کے جرمن حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔

1920 میں یوکرائن میں پیدا ہونے والے ڈیمیان یُک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے شروع میں وہ سوویت فوج میں بھرتی ہو گیا تھا۔ پھر ایک محاذ پر لڑائی کے دوران جرمن فوجی دستوں نے اُسے گرفتار کر کے جنگی قیدی بنا لیا تھا۔ بعد کے عرصے میں اس کی جان بخشی کر دی گئی، لیکن ساتھ ہی ڈیمیان یُک کو نازی کیمپوں میں یہودیوں کے قتل عام میں مدد کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔

Auschwitz Holocaust Gedenktag
تصویر: AP

جنگ کے بعد یہ مبینہ ملزم امریکہ چلا گیا، جہاں 1958 میں اُس نے امریکی شہریت حاصل کر لی تھی۔ 1981 میں اس کی امریکی شہریت منسوخ کردی گئی اور اسے اسرائیل بھیج دیا گیا، جہاں دس سال تک اس کے خلاف مقدمہ تو چلا، لیکن 1993 میں روسی حکومت کی مہیا کردہ کچھ نئی معلومات کی بنیاد پر اسرائیلی سپریم کورٹ نے اسے بری کر دیا تھا۔

ڈیمیان یُک دوبارہ امریکہ پہنچا، لیکن 2005 میں اس کے خلاف اس بنیاد پر ایک نئے مقدمے کی سماعت شروع کی گئی کہ جب اس نے پہلی بار امریکی شہریت کے حصول کی درخواست دی تھی، تو اُس نے امریکی حکام کو اپنے بارے میں جملہ حقائق نہیں بتائے تھے۔ لہٰذا ڈیمیان یُک کی امریکی شہریت دوبارہ منسوخ کر دی گئی۔ پھر ایک جرمن عدالت نے اُسے جنگی مجرم قرار دے دیتے ہوئے اُس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے، تو امریکہ سے اس ملزم کی ملک بدری کی قانونی جنگ شروع ہو گئی۔

اس جنگ میں ڈیمیان یُک کو حتمی ناکامی اسی سال مئی میں ہوئی، جس کے بعد اسے جرمنی پہنچا دیا گیا، اور اب پیر کے روز ایک وہیل چیئر پر بیٹھے نواسی سالہ جان ڈیمیان یُک کو میونخ کی ایک عدالت کو اس بارے میں جواب دینا ہوگا کہ اُس نے ہزاروں یہودیوں کے نازیوں کے ہاتھوں قتل میں مدد کیوں کی؟

رپورٹ : عبدالرؤف انجم

ادارت : مقبول ملک