آج کی دنیا ایک ٹوٹا پھوٹا معمہ، میونخ سکیورٹی رپورٹ کا خلاصہ
12 فروری 2019جنوبی جرمن شہر اور صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ میں ہر سال ہونے والی سکیورٹی کانفرنس سے قبل، جس میں دنیا بھر سے انتہائی سرکردہ سیاسی، حکومتی اور فوجی شخصیات حصہ لیتی ہیں، ایک ایسی رپورٹ بھی جاری کی جاتی ہے، جو میونخ سکیورٹی رپورٹ کہلاتی ہے۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس اسی ہفتے شروع ہو رہی ہے اور پیر گیارہ فروری کو جو میونخ سکیورٹی رپورٹ (MSR) جاری کی گئی، اس میں دیا جانے والا پیغام بہت واضح بھی ہے اور بڑا دلیرانہ ہونے کے ساتھ ساتھ باعث تشویش بھی۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اس سال عالمی عدم استحکام کے موضوع پر تفصیلی مباحثے کیے جائیں گے اور اس میں شرکت کرنے والی سرکردہ شخصیات میں امریکی نائب صدر مائیک پینس، روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی شامل ہوں گی۔
معمہ حل کون کرے
اس رپورٹ کے مطابق سکیورٹی امور کے حوالے سے آج کی دنیا ایک ایسا ٹوٹا پھوٹا معمہ بن چکی ہے، جس کے بارے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس معمے کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر وہ تصویر کون بنا سکتا ہے، جو مکمل حالت میں اسی معمے سے بنتی ہے یا بن سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گہا ہے کہ اس وقت پوری دنیا کو ایک بحران کا سامنا ہے اور امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی سیاست کے ساتھ معاملات کو صرف ’بد سے بد تر‘ ہی بنا رہے ہیں۔
اسی رپورٹ کے حوالے سے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے سربراہ، سینیئر سفارت کار اور امریکا میں جرمنی کے سابق سفیر وولفگانگ اِیشِنگر نے کہا، ’’اس وقت امریکا، چین اور روس کے مابین طاقت کے مقابلے کا ایسا دور شروع ہو چکا ہے کہ جو نظام اب ایک ترقی پسندانہ بین الاقوامی نظام (لبرل انٹرنیشنل آرڈر) کے طور پر جانا جانے لگا ہے، اسے ان حالات میں قیادت کے ایک مخصوص خلا کا سامنا بھی ہے۔‘‘
عدم استحکام کی ایک وجہ ٹرمپ بھی
رپورٹ کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ اس عدم استحکام کی کم از کم ایک بڑی وجہ تو امریکی صدر ٹرمپ بھی ہیں۔ وہ اس طرح کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں وائٹ ہاؤس میں موجودہ انتظامیہ اس بارے میں انتہائی کم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ امریکا کو ان سب معاہدوں پر کاربند رہنا چاہیے، جن کے احترام کا وہ پابند بھی ہے۔
اسی امریکی کردار کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ اکثر جو ٹویٹس کرتے ہیں، وہ مغربی دفاعی اتحاد جیسی بین الاقوامی تنظیموں اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں تک کی حیثیت اور کردار پر بڑے سوالات کھڑے کر دیتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہے کہ جسے ابھی تک ’آزاد دنیا‘ کہا جاتا ہے اور جس کا سربراہ امریکا کو سمجھا جاتا ہے، صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکا اپنے اسی قائدانہ کردار سے بظاہر دستبردار ہوتا نظر آ رہا ہے۔
میونخ سکیورٹی رپورٹ جاری کرتے ہوئے وولفگانگ اِیشِنگر نے کہا کہ یہ ایک اچھی خبر ہے کہ بحر اوقیانوس کے آر پار یورپ اور امریکا کے تعلقات کئی شعبوں میں اٹھنے والے متعدد سوالات کے باوجود انتہائی غیر معمولی ہیں اور اس بار میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شریک امریکی کانگریس کے ارکان کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو گی۔ ان میں ایوان نمائندگان کی خاتون اسپیکر نینسی پیلوسی اور سابق صدارتی امیدوار مِٹ رومنی بھی شامل ہوں گے۔
امریکا ’انسانی حقوق کے دور کے بعد کی دنیا‘ میں
میونخ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق اچھی کے بعد بری خبر یہ ہے کہ دنیا کے برسراقتدار حلقوں اور طاقت ور شخصیات کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کا وہ کردار بے چینی کی وجہ بن رہا ہے، جس میں جوش و جذبے کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن جس کے کئی پہلو بے آرام کر دینے والے بھی ہوتے ہیں۔ اس موقف کی وضاحت وولفگانگ اِیشِنگر نے اس طرح کی کہ یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک ایسی دنیا میں رہ رہی ہے، جو ’انسانی حقوق کے دور کے بعد کی دنیا‘ ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں اور جوہری ہتھیار، دونوں ہی خطرہ
ایم ایس آر نامی اس رپورٹ کے مطابق امریکا اور روس کے مابین رقابت ابھی تک دوطرفہ بنیادوں پر ایسے الزامات سے عبارت ہے، جس میں ماسکو واشنگٹن کو اور واشنگٹن ماسکو کو جوہری معاہدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی، جو ایک مسلمہ حقیقت ہیں، بظاہر ایک ایسے مسئلے کے طور پر دیکھی جاتی ہیں، جو بہت بڑا یا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے۔
اسی رپورٹ میں اس افسوسناک سوچ کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے خطرات کے معاملات میں جلد کوئی بڑی بہتری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
یورپی یونین بھی تیار نہیں
اس رپورٹ کے مطابق یورپ بین الاقوامی سطح پر اپنے اسٹریٹیجک کردار میں آگے کے بجائے مسلسل پیچھے جا رہا ہے۔ ’’اس کے علاوہ یورپی یونین نے اس سلسلے میں بھی اپنے طور پر کافی تیاری نہیں کی کہ وہ بڑی طاقتون کے مابین طاقت ہی کے بڑے مقابلے میں خود کو کہاں رکھے گا۔‘‘
ایِشِنگر کے مطابق 2019ء یورپ اور یورپی یونین کے لیے ایک فیصلہ کن سال ہو گا، خاص طور پر اس لیے بھی کہ مارچ کے آخر میں برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا اور اکتوبر میں یورپی مرکزی بینک کے نئے صدر کی نامزدگی عمل میں آئے گی۔
بریگزٹ کے باعث ’زخم‘
جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے تو بریگزٹ کی وجہ سے یہ پیش گئی ابھی تک نہیں کی جا سکتی کہ لندن اپنے لیے مستقبل میں کس پوزیشن کا خواہش مند ہو گا اور عملی طور پر اس کی حیثیت آئندہ کتنی مؤثر رہے گی۔
اس رپورٹ میں بریگزٹ کے بارے میں پورا ایک باب شامل کیا گیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ لندن اور برسلز کے مابین بریگزٹ کی عملی تفصیلات اور ان کی پارلیمانی منظوری تاحال ایک نامکمل عمل ہے۔ یہی بات مستقبل قریب میں بھی رودبار انگلستان کے اطراف کے فریقین کو ’دھچکے اور زخم‘ لگاتی رہے گی۔