آرمی ایکٹ ترمیمی بل، اپوزیشن کا غیر مشروط حمایت کا فیصلہ
2 جنوری 2020پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں توسیع کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت بدھ کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی تھی۔
اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اس بل پر کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا بلکہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن نے اس بل کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں قومی اسمبلی میں اس بل کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما رانا ثناللہ کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کی ان کی پارٹی آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کے لیے متفق ہے ۔ انہوں نے اس حوالے سے پارٹی میں اختلاف کی خبروں کو مسترد کر دیا۔
جنرل باجوہ کی ملازمت میں چھ ماہ کی مشروط توسیع
''جرنیلوں نے دس دس سال توسیع لی، کسی نے پوچھا تک نہیں‘‘
آرمی ایکٹ میں ترمیم کے اس بل کو پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کا نام دیا گیا ہے۔ اس بل میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ نیا باب آرمی چیف اور چیرمین جوائنٹ چیفس کی تعیناتی سے متعلق ہے۔ اس بل میں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت تین سال ہے جب کہ مدت ملازمت پائے تکمیل کو پہنچنے پر اس مدت میں مزید تین سال کی توسیع ممکن ہو گی۔ آرمی چیف کی نئی تعیناتی یا توسیع صدر پاکستان وزیراعظم کی مشاورت سے کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اس نئے ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گی۔ اس بل کے مطابق تینوں مسلح افواج بری، بحری، فضائی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس کو وزیراعظم کی مشاورت سے تین سال کے لیے تعینات کیا جائے گا۔
اس بل کی منظوری کے لیے پی ٹی آئی کے رہنما پرویز خٹک اور علی محمد خان خاصے متحرک نظر آئے۔ اس قانون سازی کے لیے حمایت حاصل کرنے کی خاطر حکومتی مذاکراتی وفد کے اراکین اپوزیشن لیڈر کےچیمبر پہنچے تھے۔ مسلم لیگ ن کے ذرائع کے مطابق ان کی پارٹی اس بل کی غیر مشروط حمایت کرے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل کے متن پر اپوزیشن جماعتوں کو تفصیلی بریفنگ دی جائے گی اور اس کو با ضابطہ طور پر اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
حکومت اس بارے میں پر امید ہے کہ جمعے کے روز اس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس کو سینیٹ سے پاس کروا لیا جائے گا۔ حکومت کی اس امید کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس بل پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ابھی تک کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔ مسلم لیگ کا موقف یہ ہے کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو متنازعہ نہین بنانا چاہتی۔
اسلام آباد سے جاری اپنے بیان میں چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین متوقع قانون سازی کے لیے زرداری ہاؤس آئے تھے۔ جتنی اہم قانون سازی ہے اتنا ہی اہم ہمارے لیے جمہوری عمل کی پاسداری ہے اور اس سلسلے میں پیپلز پارٹی دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے گی۔ انہوں نے ٹویٹس کے ذریعے بھی اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ حکومتی وفد نے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں زرداری ہاؤس میں بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی تھی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے اس مشاورتی عمل میں راجہ پرویز اشرف ، شیری رحمان اور رضا ربانی بھی شریک تھے۔
اس وقت سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین کی جانب سے آرمی ایکٹ ٹرینڈ کر رہا ہے، جس میں لوگ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اس ایکٹ کی حمایت کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ اٹھائیس نومبر کو سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کے لیے چھ ماہ کی مہلت دی تھی۔