آزادیٴ اظہارِ رائے کا ایوارڈ، ایرانی ماہر سیاسیات کے نام
3 مئی 2018صادق زیبا کلام یونیورسٹی آف تہران میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں اور ان کا شمار ایران کے مشہور سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ایران میں حالیہ کشیدگی کے دوران انہوں نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے تہران حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس کی وجہ سے انہیں پاسداران انقلاب کی ایک عدالت کی طرف اپریل میں اٹھارہ ماہ قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔
زیبا کلام نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے اور انہیں ابھی تک حراست میں نہیں لیا گیا۔ صادق زیبا کلام ایرانی سول سوسائٹی کے طاقتور نمائندے بن کر ابھرے ہیں۔ وہ حکومت میں شامل قدامت پسندوں کو متعدد مرتبہ تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں جبکہ وہ عوامی سطح پر ایران حکومت کی داخلی و خارجی اور حساس پالیسیوں پر بھی تبصرے کر چکے ہیں۔
وہ 1970ء کی دہائی سے اپنی اصلاحات پسند ذہنیت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ 1974ء میں انہوں نے اپنی تعلیم برطانیہ میں مکمل کی تھی اور بعدازاں دورہ ایران کے دوران انہیں ایرانی شاہ کی خفیہ پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ اس وقت ان پر ’حکومت کے خلاف سازش اور پروپیگنڈا‘ کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لیمبورگ انہیں یہ ایوارڈ جرمنی میں بارہ جون کو ہونے والے گلوبل میڈیا فورم کے موقع پر دیں گے۔ ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا، ’’یہ ایوارڈ ایران میں سول سوسائٹی کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے اور تہران حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ہے، جس کے تحت زیبا کلام جیسے افراد کو اظہار رائے کی اجازت نہیں دی جاتی۔‘‘
ڈی ڈبلیو کو انٹرویو کیوں دیا؟ ایرانی ماہر سیاسیات کو قید
اس ایوارڈ کے اعلان کے بعد زیبا کلام کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مجھے بہت عزت دی گئی ہے۔ لیکن ایسے بہت سے ایرانی خواتین حضرات ہیں، جنہوں نے مجھ سے زیادہ تکالیف برداشت کی ہیں اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح ایران سے باہر بھی ایسے سینکڑوں لوگ ہیں، جو اس انعام کے حقدار ہیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو کا ’فریڈم آف اسپیچ‘ ایوارڈ انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی وکالت کرنے والی شخصیات یا تنظیموں کو دیا جاتا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے ایسا پہلا ایوارڈ سن دو ہزار پندرہ میں زیر حراست سعودی بلاگر رائف بدوی کو دیا گیا تھا۔ سن دو ہزار سولہ میں یہ ایوارڈ ترک روزنامے ’حریت‘ کے ایڈیٹر ان چیف سیدات ایرگین کے حصے میں آیا تھا۔
اسی طرح گزشتہ برس آزادیٴ اظہارِ رائے کا یہ ایوارڈ وائٹ ہاؤس کے نامہ نگاروں کی تنظیم ڈبلیو ایچ سی اے کو دیا گیا تھا۔