1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریا کے صدارتی الیکشن کا حتمی مرحلہ اور نازک صورت حال

ایلیسن لانگلے ⁄ عابد حسین22 مئی 2016

آسٹریا میں نئے صدر کے الیکشن میں قدامت پسند اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کے نوربرٹ ہوفر کو گرین پارٹی کے حمایت یافتہ الیگزانڈر فان ڈیئر بَیلَین کا سامنا ہے۔ صدر کے الیکشن کی پہلی رائے دہی اپریل میں ہوئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1IsY1
آسٹریا کے صدارتی الیکشن کے دونوں امیدوارتصویر: Getty Images/AFP/H. Neubauer

رواں برس اپریل میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں نوربرٹ ہوفر کو پینتیس فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور وہ بقیہ تمام امیدواروں سے آگے تھے۔ حتمی کامیابی کے لیے پچاس فیصد ووٹ کا حاصل کرنا لازمی ہے۔ فان ڈیئر بَیبلَن کو تقریباً بائیس فیصد ووٹ ملے تھے۔آج ہونے والے الیکشن کی انتخابی مہم جمعے کے روز ختم ہو گئی تھی۔ اپنی انتخابی مہم کے آخری روز ہوفر نے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ آسٹریا کے نئے صدر وہی ہوں گے۔ اُن کے مدِ مقابل بہتر برس کے الیگزانڈر فان ڈیئر بَیلَین سابق یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ قدامت پسند سیاست دان ہوفر کی کامیابی پر آسٹریا کے چانسلر ویرنر فے مان نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

Österreich Wahlen Alexander Van der Bellen in Wien
گرین پارٹی کے حمایت یافتہ الیگزانڈر فان ڈیئر بَیلَینتصویر: Getty Images/AFP/J. Klamar

اگر نوربرٹ ہوفو الیکشن جیت گئے تو کسی بھی مغربی یورپی ملک میں قدامت پسند امیدوار کی یہ پہلی کامیابی ہو گی۔ ہوفر کی انتخابی مہم واضح طور پر مہاجرین مخالف ہونے کے علاوہ یورپی یونین مخالف بھی خیال کی گئی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق صدارتی الیکشن میں شریک دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے اور کسی کی کامیابی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

ایسے اندازے بھی لگائے گئے ہیں کہ آسٹریا کے رجسٹرڈ ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ابھی تک گومگو کی کیفیت میں ہے اور آخری وقت پر ہی اُن کا فیصلہ کسی ایک امیدوار کو کامیاب کرانے میں اثرانداز ہو سکتا ہے۔آسٹریا کے صدارتی الیکشن کے نتائج یورپی یونین میں بہت دور رس اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں۔ کئی ووٹرز کا خیال ہے کہ اگر قدامت پسند نوربرٹ ہوفر جیت گئے تو یورپ میں قدامت پسند نظریات کو تقویت حاصل ہو جائے گی۔

ہوفر کی سیاسی پارٹی فریڈم پارٹی فرانس کی قدامت پسند سیاستدان مارین لے پین کی نیشنل فرنٹ کی خاصی ہم خیال ہوتے ہوئے اُس کے ساتھ وابستگی بھی رکھتی ہے۔ اسی طرح یہ سیاسی جماعت ہالینڈ کے انتہائی قدامت پسند سیاستدان گیرٹ ویلڈر کی فریڈم پارٹی کے بھی قریب ہے اور یہ جرمنی کی ’الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ‘ نامی سیاسی جماعت کی بھی ہم خیال سمجھی جاتی ہے۔

Österreich Wahlen Norbert Hofer im Wahllokal in Pinkafeld
فریڈم پارٹی کے نوربرٹ ہوفر اپنا ووٹ ڈالتے ہوئﺍےتصویر: picture-alliance/dpa/EPA/C. Bruna

بعض دوسرے یورپی ملکوں میں بھی قدامت پسند سیاسی حلقے آسٹریا کے صدارتی الیکشن پر نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور مبصرین کے مطابق فن لینڈ اور ڈنمارک سمیت کئی اور ملکوں میں بھی ہوفر کی کامیابی سے قدامت پسندانہ رجحان کو فروغ حاصل ہو گا اور اِس سے مجموعی سیاسی صورت حال کے پیچیدہ ہونے کا بھی قوی امکان ہے۔ ویانا یونیورسٹی کے عصری تاریخ کے مضمون کے پروفیسر اولیور راتھ کولب کا کہنا ہے کہ اُن جیسے کئی لوگوں کو آسٹریا کے علاوہ یورپ اور دنیا میں ایسے اندازِ فکر کے حوالے سے پریشانی لاحق ہے۔ یورپ میں قدامت پسندانہ رجحان کو روکنے کے لیے مقبول و معروف سیاست دان متحرک ہیں۔ ان میں یورپی پارلیمنٹ کے صدر مارٹن شلس اور یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر خاص طور پر نمایاں ہیں اور یہ دونوں حضرات آسٹریا کے صدارتی الیکشن میں وہ الیگزانڈر فان ڈیئر بَیلَین کی حمایت کر رہے ہیں۔

اتوار کی رائے دہی کے نتائج کا اعلان پیر کے روز کیا جائے گا کیوں کہ بذریعہ پوسٹ بیجھے گئے ووٹ بھی اتوار کے پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد کھولے جایں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں