1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

استاد امانت علی خان، 40 ویں برسی

تنویر شہزاد، لاہور18 ستمبر 2014

اٹھارہ ستمبر کو برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے معروف گائیک استاد امانت علی خان کی چالیس ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ چار عشروں بعد بھی اس عظیم گائیک کی مقبولیت روزِ اوّل کی طرح ہے اور اُن کے ریکارڈ شوق سے سنے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DDjr
استاد امانت علی خان
استاد امانت علی خانتصویر: privat

آج بھی استاد امانت علی خان کے گائے ہوئے کلاسیکی گیت اور غزلیں سن کر ان کے مداحوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔

برصغیر میں غزل گائیکی کو کلاسیکی لب و لہجہ عطا کرنے والے پٹیالہ گھرانے کے معروف گلوکار استاد امانت علی خان انیس سو بائیس میں بھارتی پنجاب کے علاقے ہوشیار پور (شام چوراسی) میں پیدا ہوئے۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ شروع شروع میں امانت علی خان اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کرگایا کرتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر گانا شروع کیا۔

قیام پاکستان کے بعد استاد امانت علی خان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو گئے اور منٹو پارک کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے۔ خدا نے استاد امانت علی خان کو میٹھے لہجے اور عمدہ آواز سے نوازا تھا۔ انہوں نے کم عمری میں ہی دادرا، ٹھمری، کافی اور غزل کی گائیکی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔

ان کے گائے ہوئے چند مشہور گیتوں میں ’ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے‘، ’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘، ’موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے‘ اور ’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘ بھی شامل ہیں۔

استاد حامد علی خان کے خیال میں استاد امانت علی خان کی گائیکی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اونچی ٹون میں گاتے ہوئے بھی اپنی آواز پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے
استاد حامد علی خان کے خیال میں استاد امانت علی خان کی گائیکی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اونچی ٹون میں گاتے ہوئے بھی اپنی آواز پر مکمل کنٹرول رکھتے تھےتصویر: privat

پاک ٹی ہاوس کی محفلوں سے لے کر ریڈیو پاکستان لاہور کی راہداریوں تک ان کے ملنے والوں میں دانشوروں، شاعروں، صحافیوں اور ادیبوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ شاید اسی لیے استاد امانت علی خان کی طرف سے گائیکی کے لیے غزلوں کا انتخاب بھی بہت عمدہ ہوا کرتا تھا۔ یوں تو ان کے گائے ہوئے تقریباً سارے کلام کو موسیقی کے شائقین نے پسند کیا لیکن ابن انشا کی غزل "انشا جی اٹھو اب کوچ کرو" کو اپنی آواز سے سجانے کے بعد انہیں جوشہرت ملی، اس کی مثال پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے استاد امانت علی خان کے چھوٹے بھائی اور پاکستان کے معروف گلوکار استاد حامد علی خان نے بتایا کہ چالیس سال بعد بھی لوگ استاد امانت علی خان کے گیت شوق سے سنتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے مداح موجود ہیں، یہ بات ان کے فن کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے اور یہ ان کے اچھا فنکار ہونے کا بھی ایک ثبوت ہے:"استاد امانت علی خان کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا، ان کے کام کو بھلایا نہیں جا سکے گا۔"

استاد امانت علی خان کے گائے ہوئے کلاسیکی گیت اور غزلیں سن کر ان کے مداحوں کے دلوں کی دھڑکنیں آج بھی تیز ہو جاتی ہیں
استاد امانت علی خان کے گائے ہوئے کلاسیکی گیت اور غزلیں سن کر ان کے مداحوں کے دلوں کی دھڑکنیں آج بھی تیز ہو جاتی ہیںتصویر: AP

اُنہوں نے بتایا:’’ایک مرتبہ ان کے ساتھ کھاریاں میں پروگرام کے لیے جانا ہوا۔ وہاں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ ان کے گیت سن کر شدت جذبات سے آبدیدہ ہو گئے تھے۔"

استاد حامد علی خان کہتے ہیں کہ استاد امانت علی خان کی گائیکی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اونچی ٹون میں گاتے ہوئے بھی اپنی آواز پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے اور ان کی آواز کا اتار چڑھاو ان کے گیت کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا تھا۔

پاکستان کی ممتاز گلوکارہ فریدہ خانم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ استاد امانت علی خان ایک اچھے گلوکارہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی تھے:’’ہم نے بہت سی محفلوں میں اکٹھے گایا۔ وہ لوگوں کی عزت کرنے والے، خوش پوشاک، اپنے کام سے سچی لگن رکھنے والے اور حسد سے اجتناب کرنے والے شخص تھے۔ اللہ نے ان کے کام میں برکت دی، ان کا گایا ہوا گیت ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے میں اب بھی شوق سے سنتی ہوں۔"

استاد امانت علی خان نے کئی ملی نغمے بھی گائے۔ ان کا ایک ملی نغمہ ’اے وطن پیارے وطن‘ بہت مقبول ہوا۔ یہ نغمہ ریکارڈ کرنے والے پاکستان ٹیلی وژن لاہور سنٹر کے سابق جنرل مینجر رفیق وڑائچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ استاد امانت علی خان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ صرف اعلیٰ پائے کے کلاسیکل گلوکار ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے غزل بھی بہت عمدہ طریقے سے گائی۔ یہ اعزاز ہمارے ہاں کم لوگوں کا حاصل رہا ہے۔

شفقت امانت علی خان کہتے ہیں کہ بظاہر وہ مغربی موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں لیکن اُن کے سبھی گیت کسی نہ کسی راگ کی بنیاد پر ہوتے ہیں
شفقت امانت علی خان کہتے ہیں کہ بظاہر وہ مغربی موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں لیکن اُن کے سبھی گیت کسی نہ کسی راگ کی بنیاد پر ہوتے ہیںتصویر: privat

استاد امانت علی خان کے صاحبزادے اور پاکستان کے معروف سنگر شفقت امانت علی خان نے شام چوراسی گھرانے کی روایتی کلاسیکی موسیقی تک محدود رہنے کی بجائے مغربی انداز موسیقی کو اپنایا ہے۔ کیا یہ بات یہ ظاہر نہیں کرتی کہ استاد امانت علی خان کی کلاسیکل موسیقی اب مقبول نہیں رہی ہے، اس سوال کے جواب میں شفقت امانت علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’نہیں، ایسی بات نہیں ہے، ہمارے گھرانے میں فنکار نئے نئے تجربے کرتے رہے ہیں۔ استاد امانت علی خان نے غزل بھی گائی۔ خود میرے تمام گانے بھی کسی نہ کسی راگ کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ جس طرح لوگ بچوں کو دوائی میٹھی چیز کے ساتھ دیتے ہیں، ہم بھی جدید انداز میں کلاسیکی روایت کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں شفقت امانت کا کہنا تھا کہ استاد امانت علی خان کا گایا ہوا کلام کانوں کو بڑا آسان لگتا ہے مگر اسے ان کی طرح گانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

پاکستان کے ایک کلاسیکل سنگر استاد عقیل منظور خان نے بتایا کہ استاد امانت علی خان ایک اعلیٰ پائے کے کلاسیکل گلوکار تھے، لیکن انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں بھی گایا۔ آج کے گلوکار ان کی گائیکی سے روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔

گیتوں کی سی ڈیز فروخت کرنے والے ایک مقامی دوکاندار فرخ وسیم نے بتایا کہ کلاسیکی موسیقی اور غزلوں کے دلدادہ لوگ آج بھی استاد امانت علی خان کے گانوں کی سی ڈیز شوق سے خریدتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید