اسرائیلی لیبر پارٹی کی تقسیم
18 جنوری 2011اس حکومتی اتحادی پارٹی کے سربراہ اور سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک کی علیحدگی ضرور ہوئی ہے لیکن وہ بدستور بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ میں وزیر دفاع رہیں گے۔ لیبر پارٹی میں تازہ تقسیم پر نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی حکومت مزید مضبوط ہوئی اور اسے استحکام حاصل ہوا ہے۔ نیتن یاہو کابینہ میں شامل لیبر پارٹی کے تین وزراء نے اپنے استعفے پیش کر دیے ہیں۔ ان مستعفی ہونے والے وزراء کی جگہ باراک کے آزاد گروپ کے اراکین کا انتخاب ہو سکتا ہے۔
باراک کی علیحدگی سے قبل ایسے امکان پیدا ہو گئے تھے کہ لیبر پارٹی موجودہ حکومت کو پیش کی گئی اپنی حمایت واپس لینے والی ہے اور یہ نیتن یاہو حکومت کے زوال کا سبب بن سکتی تھی۔ اس طرح اب نیتن یاہو حکومت کو درپیش خطرہ ٹل گیا ہے۔ لیبر پارٹی کے تیرہ میں سے چار اراکین نے ایک نیا سیاسی دھڑا قائم کرلیا ہے۔ اس کا نام انہوں نے آزاد گروپ یا Atzmaut ہے۔ ان اراکین کا خیال ہے کہ اس علیحدگی سے فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات کو تقویت حاصل ہو گی۔
لیبر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایہود باراک کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت مسلسل بائیں بازو کی جانب جھکتی جا رہی ہے اور یہ پارٹی کی بنیادی آئیڈیالوجی کے خلاف ہے۔ ایہود باراک کی پارٹی سے باہر جانے پر پارٹی کے ایک لیڈر آئزک ہرزوگ کا کہنا ہے کہ اس سے پارٹی کی کمر پر لدا بوجھ اتر گیا ہے۔ ہرزوگ ان وزراء میں شامل ہیں جنہوں نے استعفیٰ دیا ہے۔ باراک کی پارٹی سے علیحدگی کے ساتھ لیبر پارٹی کو اب ایک نئے سربراہ کی بھی ضرورت ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بینجمن بن علیزر پارٹی کی قیادت سنبھال لیں گے۔
اسرائیلی سیاست کے مبصرین کا خیال ہے کہ اس تقسیم سے لیبر پارٹی مزید کمزور ہو کر سیاسی میدان میں مزید کنارے پر پہنچ گئی ہے۔ اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے شمعون پیریز اور رابن جیسے سیاسی زعماء 90ء کی دہائی میں اسرائیلی سیاست کے اہم برج تصور کیے جاتے تھے۔ ریاست اسرائیل کی تشکیل اور قیام میں بھی اسی جماعت کے سیاستدانوں کا بہت عمل دخل تھا۔
وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جماعت لیکود کی عوامی مقبولیت میں اضافہ خیال کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو خود بھی کہتے ہیں کہ ان کی حکومت اگلے کچھ سال تک حکومت کرے گی۔ اس مناسبت سے اپوزیشن کی کادیمہ پارٹی کی مقبولیت کے گراف میں سردست بلندی نہیں دیکھی جا رہی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف