اسرائیل اور ترکی سفارتی تعلقات کی مکمل بحالی پر متفق ہو گئے
17 اگست 2022ترکی اور اسرائیل کی جانب سے تعلقات کی مکمل بحالی کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم نے ترکی کا دورہ کیا تھا۔ آج اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپیڈ کے دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے سفیروں اور قونصل جنرلز کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ فیصلہ اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ ترکی اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''ترکی کے ساتھ تعلقات کی مکمل بحالی علاقائی استحکام کے لیے ایک اہم اثاثہ اور اسرائیل کے شہریوں کے لیے بہت اہم اقتصادی خبر ہے۔‘‘
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح دنیا میں اسرائیلی موقف کو مزید تقویت حاصل ہو گی۔
یہ دونوں ملک طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے تھے اور اس حوالے سے توانائی کے شعبے میں ممکنہ تعاون کی امید نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ رواں برس مارچ میں اسرائیلی صدر اسحاق ہیرسوگ نے انقرہ کا دورہ کیا تھا اور اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بتدریج بہتری پیدا ہو رہی تھی۔ اسرائیلی صدر گزشتہ دس برسوں میں ترکی کا دورہ کرنے والے اعلیٰ ترین عہدیدار تھے۔
ترک وزیر خارجہ چاوش اولو نے انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسے ایک ''مثبت پیش قدمی‘‘ قرار دیا ہے، ''ہم نے بطور ترکی اسرائیل یعنی تل ابیب میں ایک سفیر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ آئندہ چند روز میں سفیروں کی دوبارہ تقرری کا باضابطہ عمل شروع ہو جائے گا تاہم ترک وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، ''بذریعہ سفیر اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست رابطے سے انقرہ فلسطینیوں کے حقوق، غزہ اور یروشلم کا دفاع جاری رکھے گا۔‘‘
یورپ کو گیس کی فراہمی، اسرائیل روس کی جگہ لینے کا خواہش مند
ترکی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے اولین اسلامی ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ ان تعلقات کو اس وقت دھچکا لگا تھا، جب اسرائیلی نیوی نے سن 2010ء میں غزہ تک امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کرنے والے ایک ترک بحری جہاز پر دھاوا بولا تھا اور اس کے نتیجے میں ترک شہری بھی مارے گئے تھے۔
پھر سن 2016ء میں تعلقات کی بحالی ممکن ہوئی لیکن سن 2018ء کے بحران کی وجہ سے یہ تعلقات پھر سردمہری کا شکار ہو گئے۔
ان دونوں علاقائی طاقتوں نے 2018ء میں اس وقت ایک دوسرے کے سفیروں کو ملک بدر کر دیا تھا، جب یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھولنے کے خلاف غزہ کی سرحد پر احتجاج کے دوران اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 60 فلسطینی مارے گئے تھے۔
ا ا / ب ج (ڈی پی اے، اے ایف پی)