1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

اسقاط حمل: امریکی عدالتی فیصلے پر عالمی رہنماؤں کی کڑی تنقید

25 جون 2022

امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کے رہنماؤں نے اسقاط حمل سے متعلق امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے، جس سے امریکی خواتین کی اسقاط حمل کے حق سے محرومی کا خطرہ ہے۔ تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فیصلے کو سراہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4DECa
New York Protest gegen Abtreibungs-Urteil des Supreme Court
تصویر: REUTERS

امریکی سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں ملکی خواتین کو امریکی آئین کے مطابق اسقاط حمل سے متعلق حاصل حق منسوخ کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے کروڑوں امریکی خواتین اسقاط حمل کے اپنے حق سے محروم ہو سکتی ہیں۔

امریکی سپریم کورٹ نے جمعہ چوبیس جون کو جیسے ہی ملکی خواتین کے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا، کئی امریکی ریاستوں میں اس شعبے میں کام کرنے والے کلینک بند ہونا شروع ہو گئے۔ اب تک ایک درجن سے زیادہ امریکی ریاستیں اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔

عدالت نے کیا کہا؟

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ریاست مسسیسیپی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اسی امریکی ریاست کے اس قانون کو چیلنج کیا گیا تھا، جس کے تحت حمل ٹھہرنے کے پندرہ ہفتے بعد اسقاط حمل کروانے پر پابندی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے اپنا تاریخی فیصلہ اسی مقدمے کی سماعت کے بعد سنایا۔

اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت ہے اور نو رکنی بینچ میں سے چھ نے اکثریتی رائے سے یہ فیصلہ سنایا کہ امریکی آئین ’اسقاط حمل کا حق نہیں دیتا‘۔ اس کے بر عکس تین ججوں کی سوچ یہ تھی کہ امریکی آئین ملکی خواتین کو اسقاط حمل کا حق دیتا ہے۔

اپنے اس فیصلے سے امریکی عدالت عظمیٰ نے پچاس برس پرانے ’رو بنام ویڈ‘ نامی مقدمے میں اپنے ہی اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اس پر عمل بھی ہوتا آ رہا تھا۔

سن 1973 میں ’رو بنام ویڈ‘ کے نام سے معروف مقدمے میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ امریکی آئین کے تحت خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔ تاہم اسی عدالت نے جمعے کے روز اپنا یہ فیصلہ منسوخ کر دیا۔

USA Denver | Protest gegen Abtreibungs-Urteil des Supreme Court
تصویر: Michael Ciaglo/Getty Images

1973ء کے تاریخی فیصلے کے تحت خواتین کو حمل کے پہلے تین ماہ کے اندر اندر اسقاط حمل کا مکمل حق حاصل تھا جبکہ حمل ٹھہرنے کے بعد تین سے چھ ماہ کے عرصے کے دوران اسقاط حمل کی چند سخت شرائط کے تحت اجازت تھی اور حمل کی تیسری اور آخری سہ ماہی کے دوران اسقاط پر مکمل پابندی عائد تھی۔

جمعے کے روز عدالت عظمیٰ نے سن 1992 کے 'پلانڈ پیرنٹ ہڈ بنام کیسی‘ نامی فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں عورتوں کے اسقاط حمل کی حق کی توثیق کی گئی تھی۔ اس بارے میں عدالت نے کہا، ’’آئین اسقاط حمل کا حق نہیں دیتا: ’رو بنام کیسی‘ کیس منسوخ کیا جاتا ہے اور اسقاط حمل کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کو واپس کیا جاتا ہے۔‘‘

فیصلے پر شدید تنقید

خواتین کے اسقاط حمل کے حق کا تحفظ کرنے والے گزشتہ امریکی عدالتی فیصلے کے منسوخ کیے جانے پر بہت سے حلقوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے امریکہ کے لیے ’افسوس ناک دن‘ اور عدالت عظمیٰ کے قدامت پسند ججوں کو ’انتہا پسند‘ قرار دیا۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اسقاط حمل کے حق کے تسلسل کی لڑائی ابھی ’’ختم نہیں ہوئی۔‘‘

امریکی صدر نے کہا کہ ان کی انتظامیہ مانع حمل ادویات اور ذرائع تک رسائی کو تحفظ دے گی اور ہر ممکن کوشش کرے گی کہ خواتین اسقاط حمل کے لیے مجبوراﹰ دوسرے ممالک کا سفر کرنے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔

سابق امریکی صدر باراک اوباما اور ان کی اہلیہ مشیل اوباما نے بھی اس فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ان کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ مشیل اوباما نے کہا کہ وہ ’دل شکستہ‘ ہیں کیونکہ ریاست نوجوان خواتین کے ’افزائش نسل سے متعلق فیصلوں‘ کو ’کنٹرول‘ کرنا چاہتی ہے۔

USA Washington Protest gegen Abtreibungs-Urteil des Supreme Court
تصویر: Julia Nikhinson/AP/picture alliance

باراک اوباما نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ قدامت پسندوں کی اکثریت والی امریکی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پیچھے کی طرف ایک قدم ہے۔ اوباما نے لکھا، ’’سپریم کورٹ نے آج نہ صرف تقریباً 50 برس پرانی نظیر کو  ختم کر دیا، بلکہ انہوں نے انتہائی شدت کے ساتھ اپنے ذاتی فیصلوں کو بعض سیاست دانوں کے نظریات کی خواہشات کے مطابق کر دیا ہے۔ (یہ فیصلہ) لاکھوں امریکیوں کی اہم آزادیوں پر حملے کے مترادف ہے۔‘‘

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ’پیچھے کی جانب بڑا قدم ہے‘۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی اس عدالتی فیصلے کو ’خوفناک‘ قرار دیا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ان امریکی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، جن کی شخصی آزادیوں کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ جرمن وزیر برائے خاندانی امور نے بھی کہا کہ وہ اس فیصلے پر ’حیرت زدہ‘ ہیں۔

ٹرمپ اور پینس کی طرف سے خیر مقدم

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ٹرمپ کے دور میں امریکی نائب صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے پینس اور ماضی کی ٹرمپ انتظامیہ کے بعض دیگر عہدیداروں نے امریکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ فیصلہ دراصل ملکی آئین کی پیروی ہے اور وہ حقوق واپس دے رہا ہے، جو بہت پہلے لوٹا دیے جانا چاہیے تھے۔‘‘

جب ٹرمپ سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عہدہ صدارت کے دوران سپریم کورٹ میں تین قدامت پسند ججوں کی تقرری کر کے اس فیصلے میں اپنا بھی کوئی کردار ادا کیا ہے، تو انہوں نے کہا، ’’یہ فیصلہ خدا نے کیا۔‘‘

سابق امریکی نائب صدر مائیک پینس نے کہا، ’’اب جب کہ ’رو بنام ویڈ‘ فیصلہ راکھ کے تاریخی ڈھیر کا حصہ بن گیا ہے، زندگی کے مقصد میں ایک نیا میدان ابھر کر سامنے آیا ہے اور جو تمام لوگ زندگی کے تقدس کا خیال رکھتے ہیں، ان پر فرض ہے کہ ہم  اس مسئلے کو حل کریں۔‘‘

ص ز / م م (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

پاکستان: اسقاط حمل میں اضافہ کیوں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید