اسلام آباد میں اطالوی نیوز ایجنسی کا مقامی صحافی لاپتہ
31 مئی 2011اتوار سے لاپتہ ہونے والے اطالوی نیوز ایجنسی AKI کے مقامی نمائندے سید سلیم شہزاد کی کار اسلام آباد کے ہائی سکیورٹی زون سے دستیاب ہوئی ہے۔ گاڑی ایک جگہ پارک تھی۔ ان کے لاپتہ ہونے کے بعد سے ان کا خاندان یا اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ان کے لاپتہ ہونے کے بارے میں تشویش اس وقت شروع ہوئی جب وہ ایک ٹیلی وژن پروگرام میں شرکت سے قاصر رہے۔
ساؤتھ ایشیاء فری میڈیا کے کوارڈینیٹر علی عمران کا کہنا ہے کہ سید سلیم شہزاد کے بارے میں کوئی پتہ نہیں کہ ان کو کون لے گیا ہے۔ علی عمران کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاپتہ صحافی کے ساتھ جو بھی وقوعہ ہوا ہے وہ دن دیہاڑے ایسے مقام پر ہوا جہاں ہر وقت سکیورٹی انتہائی چوکس رہتی ہے۔ علی عمران نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کے لاپتہ ہونے کا تعلق وہ آرٹیکل بھی ہو سکتا ہے جو چند روز قبل سنگاپور میں قائم ایشیاء ٹائمز آن لائن میں شائع ہوا تھا۔
ان کے مضمون میں کراچی کے نیوی بیس پر حملے میں القاعدہ کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔ سلیم شہزاد، ایشیاء ٹائمز آن لائن کے بیورو چیف بھی ہیں۔
ایشیاء ٹائمز آن لائن میں سلیم شہزاد کا مضمون 27 مئی کو چپھا تھا۔ اس کا عنوان تھا: ’القاعدہ نے پاکستان میں حملوں کا انتباہ دیا تھا‘۔ اس مضمون میں 22 مئی کے روز کراچی کے نیول بیس پر دہشت گردوں کے حملے کو فوکس کیا گیا تھا۔ اس میں سلیم شہزاد نے اس شبے کا اظہار کیا تھا کہ اس دہشتگردانہ حملے میں اندر سے تعاون حاصل تھا اور اس میں شریک افراد کا تعلق الیاس کشمیری کے 313 بریگیڈ سے تھا۔ الیاس کشمیری کا یہ گروہ القاعدہ سے وابستہ ہے۔
نومبر سن 2006 میں سلیم شہزاد کو افغانستان میں طالبان انتہاپسندوں نے اغواء کر لیا تھا۔ چھ دن بعد انہوں نے اپنی اہلیہ کو بتایا کہ ایک صحافی قمر یوسف زئی کے ہمراہ انہیں طالبان کمانڈر مطیع اللہ نے مقید کر رکھا ہے۔ دونوں صحافیوں کو مشتبہ جاسوس کے طور پر طالبان عدالت میں پیش کیا گیا۔ طالبان کی قائم کردہ عدالت نے انہیں چند غلطیوں کے اعتراف کے بعد رہا کردیا تھا۔
صحافیوں کی ایک تنظیم انڈیپینڈنٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کےخیال میں پاکستان صحافیوں کے لیے کوئی پرسکون اور آرام دہ ملک نہیں ہے۔ یہ تنظیم پاکستان کو انتہائی خطرناک تصور کرتی ہے۔ تنظیم کے مطابق ذرائع ابلاغ کے نمائندے انتہاپسندوں اور سکیورٹی اہلکاروں کا نشانہ آئے روز بنتے رہتے ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: افسر اعوان