پاکستان: حقوقِ انسانی کمیشن کی سالانہ رپورٹ
14 اپریل 2011جمعرات کے روز اسلام آباد میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق سالانہ رپورٹ کے اجراء کے موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال 12580 افراد کو قتل کیا گیا جبکہ اغوا برائے تاوان کے 581 اور اغوا کے 16977 واقعات منظر عام پر آئے۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق سال 2010ء میں عقیدے کی بنیاد پر روا رکھے گئے تشدد میں 99 احمدیوں کی جان لی گئی جبکہ اقلیتی برادریوں کے خلاف تشدد کی کارروائیاں کرنے والے ملزمان کو بدستور استثنیٰ حاصل رہا۔
گزشتہ برس توہین رسالت کے ایکٹ کے تحت کم از کم 64 افراد کے خلاف مقدمات دائر کیے گئے، جن میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی بھی شامل ہے۔ توہین رسالت ہی کے الزام میں گرفتار تین افراد کو دوران حراست گولی مار دی گئی۔
حقوقِ انسانی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق معاشرے میں مذہب اور زبان کی بنیاد پر تفریق تیزی سے بڑھی ہے لیکن اسے روکنے کے لیے حکومتی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں، جن میں حکمران جماعت بھی شامل ہے، اپوزیشن جماعتیں بھی شامل ہیں، اسمبلی میں موجود اور اسمبلی سے باہر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں، ان کے سیاسی ایجنڈے میں عوام کی بھلائی کی پالیسیاں نظر نہیں آئیں۔ منتخب حکومت جب سے آئی ہے، وہ دوسرے مسائل میں زیادہ الجھی ہوئی ہے۔‘‘
رپورٹ میں پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اغوا اور ٹارگٹ کلنگ کے خطرات کے باعث ان علاقوں کو عملاً ’’نو گوایریاز‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا۔ رپورٹ میں امریکی ڈرون حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کو ’ماورائے عدالت‘ ہلاکتیں کہا گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے ایک اور عہدیدار کامران عارف کے مطابق فاٹا کے حوالے سے اب بھی بہت سی معلومات وہاں کے خراب حالات کے سبب سامنے نہیں آ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’قبائلی علاقوں سے بہت زیادہ تفصیلات اس لیے بھی نہیں آ سکتیں کیونکہ وہاں پر سب سے پہلے صحافیوں اور پھر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کی پہنچ نہیں ہے اور اگر بعض علاقوں تک ان کی رسائی ہو بھی جاتی ہے تو یہ وہاں پر آزادانہ کام نہیں کر سکتے اور ان کو اپنی جان کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہاں سے قابل اعتماد رپورٹنگ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔‘‘
سال 2010ء میں بھی پاکستان کی عدالتوں نے ملزمان کو سزائے موت دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ آج کل مجموعی طور پر ملک میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد 8000 ہے، جن میں سے اکٹھے 6000 قیدیوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ خواتین پر تشدد کے حوالے سے اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سال کے دوران 791 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 3000 خواتین جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنائی گئیں۔
گزشتہ سال ملک میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں 10 ملین بچے مسائل کا شکار بنے۔ اسی عرصے کے دوران چائلڈ لیبر، گھریلو جبری مشقت اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا سلسلہ بھی وسیع پیمانے پر جاری رہا۔
پاکستان میں کام کرنے والی ایک جرمن این جی او فریڈرش ناؤمن فاؤنڈیشن کے نمائندے اولاف کیلر ھوف کے مطابق ایچ آر سی کی رپورٹ اس لیے بہت اہم ہے کہ اس کی روشنی میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے:’’اس رپورٹ سے کچھ زیادہ اچھی تصویر تو نہیں ابھرتی لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے ذمہ دار شہری موجود ہیں، جو انسانی حقوق کی صورتحال کا خیال رکھتے ہیں اور اس کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں 20 صحافی اور میڈیا کے ارکان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے صحافیوں کو جسمانی حملوں، دھمکیوں اور یکطرفہ نظر بندیوں کا نشانہ بنایا جبکہ عسکریت پسندوں اور مجرموں کی طرف سے بھی صحافیوں کو دھمکیاں ملتی رہیں۔
رپورٹ میں پارلیمنٹ کی جانب سے متفقہ طور پر اٹھارویں اور انیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کو نمایاں کامیابی جبکہ سال 2010ء کو عدلیہ کے لیے ہیجان خیز قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی