اسلام آباد میں کشمیر کانفرنس کا انعقاد
21 ستمبر 2010اسلام آباد میں کشمیر کے پاکستان کے زیر انتظام حصے کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرکاء نے کہا کہ کنٹرول لائن کے اِس پار کے کشمیریوں کو سرحد پار اپنے بھائیوں سے اظہار یکجہتی کےلئے لائن آف کنٹرول عبور کر کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہو جانا چاہئے۔
اس موقع پر پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے سابق صدر جنرل انور خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ موجودہ حالات میں کشمیری پاکستان سمیت پوری دنیا کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ ان کا مسئلہ جلد حل کیا جائے لیکن ان کی آواز کہیں بھی نہیں سنی جا رہی۔
جنرل انور خان نے کہا: ”اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان قصور وار ہے، جس نے اس معاملے کو مؤثر انداز میں کسی عالمی فورم پر نمایاں نہیں کیا۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے، اس وقت پاکستان ایک اہم فریق کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن پاکستان کی طرف سے اس مسئلے کو صحیح طریقے سے اجاگر نہیں کیا گیا۔“
اس کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا، جس میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلا کر کشمیر میں جاری پرتشدد کارروائیوں اور قحط سالی کو روکنے کے لئے حکمت عملی ترتیب دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس اعلامیے میں وادی کشمیر کے محصورین کے لئے ریلیف کا ضروری سامان اور ادویات فراہم کرنے کے لئے کشمیر فریڈم فلوٹیلا کے زیر اہتمام امدادی اقدامات کو وقت کی اہم ترین ضرورت بھی قرار دیا گیا۔
اعلامیے میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایک اعلیٰ سطحی کشمیر کانفرنس کا اہتمام کرے اور ملکی پارلیمان کے رواں اجلاس میں تحریک آزادیء کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اپنے تاریخی اور قومی موقف کا اعادہ بھی کرے۔
دریں اثناء پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارتی سیکریٹری خارجہ نروپما راﺅ کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات پر بات چیت کےلئے تیار ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاک بھارت بات چیت خطے کے تمام مسائل کے حل کے لئے ناگزیر ہے۔
ترجمان نے کہا: ”جیسا کہ ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ اس کو دوبارہ وہیں سے شروع کیا جائے، جہاں بات چیت کا یہ سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ اگر بھارت جموں کشمیر، سیاچن اور دیگر متنازعہ امور پر مکالمت کرنا چاہتا ہے، تو ہم مذاکرات کی میز پر نئی دہلی کو خوش آمدید کہتے ہیں اور ان مذاکرات کی بحالی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔“
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں