افريقی يونين کی قذافی سے وفاداری
31 اگست 2011ليبيا کے معمر القذافی کا افريقہ سے خصوصی لگاؤ اُن کے دور اقتدار کے اختتامی برسوں ميں شروع ہوا۔ اُن کے اس انس کا جواب افريقی ممالک کے سربراہوں کی طرف سے بھی اتنا ہی زيادہ پر اشتياق تھا اور وہ آج تک قذافی کے وفادار ہيں۔ افريقی ممالک کی تنظيم افريقی يونين نے ابھی تک ليبيا کی عبوری قومی کونسل کو تسليم نہيں کيا ہے، جبکہ نہ صرف يورپی ملکوں بلکہ عرب ليگ تک نے اُسے تسليم کر ليا ہے حالانکہ عرب ليگ اکثر اس قسم کے معاملات ميں تاخير اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے۔
پچھلے جمعہ کو افريقی يونين کا ايک خصوصی سربراہی اجلاس ہوا تھا، جس ميں قذافی سے متعلق يونين کی پاليسی پر غور کيا گيا۔ نيروبی يونيورسٹی کے پروفيسر آدمس اولو نے کہا: ’’قذافی افريقی يونين کی قوت متحرکہ تھے۔ وہ تمام افريقی ممالک کا اتحاد چاہتے تھے۔ سب سے اہم بات يہ ہے کہ وہ افريقی يونين کو سب سے زيادہ مالی مدد بھی ديتے تھے۔ اس ليے بھی يہ تنظيم قذافی کو چھوڑنے سے پہلے آخری وقت تک انتظار کرنا چاہتی ہے۔ بعض افريقی سربراہان کا خيال ہے کہ قذافی دوبارہ اقتدار سنبھال سکتے ہيں اور وہ اس صورت ميں قذافی کے مخالف قرار پانے سے ہر قيمت پر بچنا چاہتے ہيں۔‘‘
يہ واضح نہيں ہے کہ قذافی نے افريقی يونين اور افريقی ممالک کی امداد پر کتنی رقم خرچ کی، ليکن اندازہ ہے کہ افريقی يونين کے اخراجات کا نصف حصہ قذافی کے عطيات سے ادا کيا جاتا رہا ہے۔ ليبيا نے افريقہ کے ليے بہت کثير رقوم خرچ کيں۔ قذافی نے اس براعظم کی بہت سی خانہ جنگيوں ميں اسلحے اور پيسے سے مدد دی۔ اُن کی مدد کے بغير دار فور کے باغی بھی اتنے لمبے عرصے تک نہيں لڑ سکتے تھے۔
آدمس اولو نے کہا: ’’افريقی يونين کو ايک مالی بحران کا سامنا ہے۔ يہ نہيں کہا جا سکتا کہ کيا قذافی کے جانشين کو بھی افريقہ سے اتنا ہی زيادہ لگاؤ ہو گا۔ دوسری افريقی حکومتيں باتيں تو بہت کرتی ہيں، ليکن ديتی کچھ بھی نہيں ہيں۔ افريقی يونين کو قائم رکھنے والے کسی اور شخص کو تلاش کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔‘‘
اسً ليے افريقی يونين اب بھی معمرالقذافی سے وفاداری کا دم بھرتی ہے۔
رپورٹ: بٹينا ريول، نيروبی / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک