افریقہ میں قذافی کے خلاف امریکی سفارتی مہم
10 اگست 2011مگر افریقہ کے کئی ممالک ماضی میں قذافی کی پالیسیوں سے مالی فوائد حاصل کرتے رہے ہیں اور وہ ان پر اقتدار چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ اس کی بجائے انہوں نے لیبیا میں نیٹو کے فوجی حملوں پر نکتہ چینی کی ہے۔
فروری میں معمر قذافی کی جانب سے حزب اختلاف کے مظاہرین کے خلاف خونریز کارروائیوں کے بعد طرابلس چھوڑ جانے والے امریکی سفیر جین کریٹز پیر کو افریقی یونین کے ہیڈکوارٹر ادیس ابابا پہنچے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے دورہء افریقہ کا مقصد افریقی یونین کی رکن ریاستوں کے رہنماؤں سے ملاقاتوں میں لیبیا کے بحران پر تبادلہ خیال کرنا اور قذافی کے اقتدار چھوڑ دینے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔
جین کریٹز نے ایتھوپیا کے وزیر اعظم میلس زیناوی سے ملاقات کی اور وہ افریقی یونین کے سربراہ ژاں پنگ سے بھی ملاقات کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے لیبیا کی حزب اختلاف کی قومی عبوری کونسل کے رہنما محمود جبریل سے بھی ملاقات کی، جو ایتھوپیا کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جون میں افریقی یونین کے ہیڈکوارٹر کے دورےکے موقع پر تمام افریقی ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ قذافی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مقرر کردہ تمام سفارتکاروں کو بھی ملک بدر کر دیں اور لیبیا کی حزب اختلاف کی مدد کریں۔
ادھر لیبیا کا بحران جاری ہے اور کسی فضائی حملے میں معمر قذافی کی ہلاکت یا اندرونی انقلاب کے بغیر ان کے اقتدار چھوڑنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ حزب اختلاف کی فورسز نے حالیہ ہفتوں میں کچھ پیشرفت کی ہے مگر وہ قذافی کی منظم اور بہتر تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ قذافی کے حامی یہ سوچ رہے ہیں کہ تنازعے کے مزید طول پکڑ جانے کی صورت میں باغیوں کے دھڑے میں اندرونی اختلافات پیدا ہو جائیں گے اور مغربی طاقتیں کچھ عرصے کے بعد اپنی کوششیں ترک کر دیں گی، لہٰذا اگر وہ مزید چھ مہینے یا ایک سال اسی طرح گزار لیں تو یہ قذافی اور ان کے حامیوں کی کامیابی ہوگی۔
کل منگل کے روز اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ لیبیا کی حکومت نے اس عالمی ادارے سے کہا ہے کہ قذافی حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں خوراک، ایندھن اور ادویات کی دستیابی خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ اس صورت حال سے مغربی لیبیا میں بے چینی پھیل سکتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اتحاد کے خلاف بھی فضا تیار ہو سکتی ہے کیونکہ لازمی ضرورت کی ان اشیاء پر پابندیوں کے لیے انہیں ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ پہلے ہی قذافی کے حامی یہ دعوٰی کر رہے ہیں کہ نیٹو کے حملوں میں بہت سے عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایک نئی پیشرفت میں لیبیا کے سرکاری ٹیلی وژن پر معمر قذافی کے بیٹے خمیس قذافی کو طرابلس میں ہونے والے ایک حملے کے زخمیوں سے ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے، جس سے باغیوں کے خمیس کی ایک حالیہ فضائی حملے میں ہلاکت کے دعووں کی نفی ہوتی ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک