نیٹو حملے میں قذافی کے بیٹے کی ہلاکت: باغیوں کا دعویٰ
5 اگست 2011باغیوں کے مطابق قذافی کے بیٹے خامس کی ہلاکت مصراتہ شہر کے ایک قصبے زلیتن پرکیے جانے والے فضائی حملے کے دوران ہوئی ہے۔ زلیتن کا مقام بحیرہ روم کے خلیج سدرا کے کنارے پر واقع ہے۔ زلیتن پر فضائی حملے کے حوالے سے طرابلس نے نیٹو اتحاد پر الزام عائد کیا ہے کہ آپریشن کے اہداف سویلین آبادیاں ہیں اور اس سے انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔
اٹھائیس سالہ خامس کی ہلاکت کی تصدیق باغیوں نے زلیتن میں مقیم خفیہ رابطہ کاروں کے حوالے سے کی ہے۔ باغیوں کی متحدہ انقلابی فورسز کے ترجمان محمد زواوی کے مطابق مشرقی لیبیا میں واقع ان کے آپریشن روم نے قذافی کے بیٹے کی ہلاکت بارے مختلف ریڈیائی پیغامات کوبھی انٹر سیٹ کیا ہے۔ خامس قذافی کی ہلاکت کی تصدیق ابھی تک کسی آزاد ذرائع سے ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ اس مناسبت سے طرابلس حکومت کی جانب سے بھی کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اسی طرح نیپلز میں واقع نیٹو کے لیبیا مشن کے صدر دفتر نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ وہ اس ہلاکت کے معاملے پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
قذافی کا بیٹا خامس روسی ملٹری اکیڈمی کا تربیت یافتہ ہے۔ وہ اپنے نام سے موسوم خامس بریگیڈ کا سربراہ بھی ہے۔ خامس بریگیڈ کو طرابلس حکومت کا انتہائی اہم اور مشاق جنگجو یونٹ خیال کیا جاتا ہے۔ حالیہ ایک دو ہفتوں سے زلیتن کا مقام حکومت اور باغیوں کے درمیان جنگ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
ادھر قذافی کے ایک اور بیٹے سیف الاسلام قذافی اہم مذہبی اسکالر علی شیلابی سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شیلابی کے ساتھ معاہدے کی بھی بات قذافی کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ سیف الاسلام قذافی کے خیال میں لیبیا میں باغیوں کی تحریک کے روح رواں علی شیلابی ہیں۔ ممتاز اسکالر علی شیلابی نے قذافی کے ساتھ بات چیت کی تصدیق ضرور کی ہے لیکن انہوں نے کسی بھی معاہدے کو مسترد کردیا ہے۔ شیلابی کے مطابق سیف الاسلام قذافی ان کے ساتھ گزشتہ چند ماہ سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لیبیا کے ڈپٹی وزیر خارجہ خالد کریم کے مطابق باغیوں نے نیفوسہ پہاڑی علاقے میں ایک تیل کی پائپ لائن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کریم کے مطابق اس کارروائی سے طرابلس میں بجلی کی سپلائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ طرابلس میں عام لوگ بھی گیس کی شدید قلت اور بلیک آؤٹ کے طویل دورانیوں پر پریشان ہیں۔
دوسری جانب باغیوں کا گڑھ بن غازی ابھی تک کمانڈر عبد الفتح یونس کے قتل کے اثرات کی گرفت میں ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے کئی پہلو بھی غیر وضح ہیں۔ بہرحال اس کے قتل کے بعد باغیوں کے اندرونی حلقے محتاط ہو گئے ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق