افغانستان میں واٹس ایپ پر پابندی کا فیصلہ
4 نومبر 2017افغانستان میں ٹیلی کام سیکٹر کے نگران ادارے ATRA نے انٹرنیٹ فراہم کرنے والے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹیکسٹ میسیجز سروس واٹس ایپ اور ٹیلی گرام کی ترسیل کو بلاک کر دیں۔ ابھی تک اس کا تعین نہیں ہو سکا ہے کہ آیا انٹرنیٹ پرووائڈر نے اس حکومتی حکم پر پوری طرح عمل کیا ہے۔
’تمہاری ناک کاٹنے کے لیے افغان مرد کے حوالے نہ کر دیا جائے‘
ٹیلی وژن اسکرین پر ’امید‘ دکھانے کا عزم
خبردار: جرمنی میں غیر قانونی ڈاؤن لوڈنگ سے باز رہیں
یہ امر اہم ہے کہ حالیہ برسوں میں افغانستان میں واٹس ایپ اور پیغام بھیجنے کے رجحان میں شدید اضافہ ہو چکا ہے اور ہر خاص و عام ان سہولیات کو استعمال کرتے ہیں۔ حکومتی ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے اس خط پر سوشل میڈیا صارفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس نئی حکومتی فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ حکومتی فیصلہ ملکی خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ برائے سکیورٹی (این ڈی ایس) کے ایما پر کیا گیا ہے۔ افغانستان کے قائم مقام وزیر مواصلات شہزاد اریوبی کا ایک بیان بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر جاری کیا گیا ہے اور اُس میں بھی بتدریج واٹس ایپ اور ٹیلی گرام کرنے پر پابندی لگانے کا بتایا گیا ہے۔ اریوبی کے مطابق یہ پابندی عوامی شکایات کے تناظر میں اور سروس کو مزید بہتر کرنے کے تناظر میں ہے۔
افغان ادارے نے یکم نومبر کو خط جاری کیا ہے اور اس میں واضح کیا گیا ہے کہ واٹس ایپ اور ٹیلی گرام پر بیس روزہ پابندی فوری طور پر عائد کر دی جائے۔ اطلاعات کے مطابق اس حکم نامے پر ابھی تک انٹرنیٹ پرووائڈر نے پوری طرح عمل نہیں کیا ہے اور یہ سروسز بحال ہیں۔
جمعہ تین اکتوبر کو افغانستان کے بعض علاقوں میں واٹس ایپ کے استعمال اور ٹیلی گرام میسجز میں خلل ضرور دیکھا گیا اور یہ واضح نہیں کہ یہ تکنیکی خرابی حکومتی پابندی کا نتیجہ ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں وائبر، فیس بک میسجنگ سروس اور واٹس ایپ کا غیر معمولی استعمال کیا جاتا ہے۔
ان سروسز کے استعمال میں افغان عوام کے ساتھ سیاستدان اور عسکریت پسند تنظیم طالبان کے جنگجُو بھی شامل ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میسج کیا ہے کہ واٹس ایپ پر پابندی کی صورت میں وہ وائبر پر دستیاب ہوں گے۔