افغان بچے مسلح تنازعے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں
5 اکتوبر 2019اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس عالمی ادارے کے سربراہ انتونیو گوٹیرش نے تمام جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کی اس خطرنک ترین حد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ کہ بچے ابھی تک اس مسلح تنازعے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ان کے بقول اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ 2015ء اور 2018ء کے دوران بارہ ہزار چھ سو بچے ہلاک و زخمی ہوئے اور یہ شرح عام شہری ہلاکتوں کی ایک تہائی بنتی ہے، ''یہ اس سے قبل کے چار برسوں کے مقابلے میں بیاسی فیصد کا اضافہ ہے۔‘‘ گوٹیرش کے بقول حکومتی اور حکومت کے حامی دستوں کی کارروائیوں میں اتنی بڑی تعداد میں خاص طور پر بچوں کی ہلاکتوں پر انہیں انتہائی تشویش ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015ء کے بعد خاص طور پر فضائی کارروائیوں میں بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گوٹیرش کے بقول مسلح تنظیمیں 43 فیصد بچوں کی ہلاکتوں کی ذمہ داری ہیں اور ان میں طالبان پیش پیش ہے۔ اسی طرح گزشتہ چار برسوں میں اسلامک اسٹیٹ کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بچوں کی تیس فیصد ہلاکتوں کی ذمہ داری حکومتی اور حکومت کے حامی دستوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔
گوٹیرش کے مطابق اقوام متحدہ مسلح گروہوں کی جانب سے بچوں کو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں اور بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی بھی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ مہینوں میں طالبان کے 45 سے 60 ہزار جنگجو متحرک ہیں جبکہ حقانی گروپ بھی طالبان کی عسکری کارروائیوں میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح القاعدہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مشرقی افغانستان کے پہاڑوں تک ہی محدود ہے اور اسلامک اسٹیٹ بھی اسی علاقے میں متحرک ہے، جس کے جگجوؤں کی تعداد ڈھائی سے چار ہزار کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔
ع ا / ع ح