1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان جنگ: امریکہ میدان نہ چھوڑے، مشرف کا مشورہ

16 فروری 2010

ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے لندن میں چیٹم ہاؤس نامی تھنک ٹینک سے اپنے خطاب میں خطے میں سلامتی کی صورتحال اور پاکستان میں اپنے ممکنہ سیاسی کردار کے حوالے سے بھی خیالات کا اظہار کیا۔

https://p.dw.com/p/M2Ug
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرفتصویر: dpa - Report

سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف نے افغانستان سے اتحادی ملکوں کے فوجی انخلاء سے متعلق بیانات کو وہاں قیام امن کی کوششوں کے لئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

ریٹائرڈ جنرل مشرف کے بقول امریکہ کا افغانستان کے لئے اپنے مزید تیس ہزار فوجی بھیجنا درست اور بروقت فیصلہ ہے، تاہم ابھی میدان چھوڑنے کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ پرویز مشرف کے بقول اگر وہ طالبان کے کوئی کمانڈر ہوتے تو فوراً عسکری مزاحمت ترک کر کے خاموشی سے اتحادی افواج کے انخلاء کا انتظار کرتے۔

Flash-Galerie Pakistan: Flüchtlinge aus Waziristan
’تمام پشتونوں کو دشمن سمجھنے کی پالیسی نے انہیں الگ تھلگ کردیا ہے،‘ مشرفتصویر: AP

جنگی حکمت عملی کے ماہر جنرل مشرف نے 1964میں پاکستانی فوج کی آرٹلری رجمنٹ اور بعد میں اسپیشل سروسز گروپ SSG میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لندن میں دوران خطاب ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں افغان عوام کو ہمت اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہے، نہ کہ ان سے یہ کہا جائے کہ دو سال بعد انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔

مغربی رہنماؤں کو خبردار کرتے ہوئے سابق پاکستانی صدر نے کہا کہ پوری دنیا سے عسکریت پسندی کے خاتمے کے لئے افغانستان اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں ’اسلامی شدت پسندوں‘ کو شکست دینا ناگزیر ہے۔

افغان صدر حامد کرزئی نے حال ہی میں طالبان عسکریت پسندوں کو پرامن طریقے سے قومی دھارے میں شامل کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت عسکریت پسندی ترک کر دینے والوں کو باعزت روزگار اور تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ ریٹائرڈ جنرل مشرف نے اس منصوبے پر عمل درآمد کو موجودہ صورتحال میں قدرے مشکل قرار دیا۔ ان کے بقول افغانستان پر سال 2001 میں اتحادی فوجی حملے کے ابتدائی دنوں میں یہ کام زیادہ آسان ہوسکتا تھا۔ پرویز مشرف نے واضح کیا کہ تمام پشتونوں کو دشمن تصور کرنے کی پالیسی نے پشتون آبادی کو الگ تھلگ کر کے رکھ دیا ہے۔

Pakistan General Präsident Pervez Musharraf
’فوجی نہیں عام شہری ہوں، کسی چیز پر قبضہ نہیں کرسکتا‘، مشرفتصویر: picture-alliance/ dpa

سابق پاکستانی صدر نے مغربی دنیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان عسکریت پسندوں کے مقابلے میں پشتونوں کی ہمدردی حاصل کرنے اور معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو اسے شک بھری نظروں سے دیکھا گیا۔ ان کے بقول اُس وقت سیاسی پالیسی فوجی حکمت عملی سے زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی تھی۔

لندن میں بین الاقوامی امور کے ماہرین سے اپنے خطاب میں ریٹائرڈ جنرل مشرف نے پاکستانی سیاست میں اپنی دوبارہ واپسی کا عندیہ بھی دیا۔ پاکستان کے اس سابق آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ اب وہ کوئی فوجی نہیں بلکہ ایک عام شہری ہیں اور کسی بھی چیز پر قبضہ نہیں کرسکتے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں