مشرف کے خلاف مقدمہ: مطالبہ ڈھیلا پڑ گیا
5 ستمبر 2009پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کئے جانے کے مطالبے کے تناظر میں وزیر داخلہ رحمان ملک، جنرل پرویز مشرف اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے دورہ سعودی عرب اور بعض اعلیٰ سطحی خفیہ ٹیلی فون رابطوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب بھی ایک بار پھر انتشار اور محاذ آرائی سے دوچار پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر سرور باری کے مطابق اس صورتحال سے پاکستانی سیاستدانوں کی ناپختگی کا بھی ظاہر ہوتی ہے: ’’میاں نواز شریف کا پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا مطالبہ پہلے سے بہت کمزور ہو گیا اور وہ اس پر بات نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے معاملات میں باہر کی مداخلت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں میں ابھی تک وہ پختگی نہیں آئی کہ وہ اپنے معاملات کسی طریقے سے خود حل کر لیں۔‘‘
بعض مبصرین کے خیال میں سعودی عرب کسی ایسے مفاہمتی فارمولے کی تلاش میں ہے، جس سے ایک طرف جنرل مشرف آئین کی خلاف ورزیوں پر معافی مانگ لیں اور دوسری طرف ان کے خلاف مقدمے کا مطالبہ کرنے والوں کی تسلی کے ساتھ ساتھ آئندہ آئین سے انحراف اور فوجی مداخلت کے امکانات کو بھی کم سے کم کیا جا سکے۔
شاید اسی سعودی کوشش کے زیر اثر احسن اقبال کے بعد (ن) لیگ کے ایک اور رہنما خرم دستگیر نے بھی کہا ہے کہ جب تک مشرف کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، آئین ٹوٹتا رہے گا اور موجودہ حکومت نے یہ کام نہ کیا تو ان کی جماعت برسراقتدار آ کر مشرف کے خلاف مقدمہ چلائے گی۔
خیال رہے کہ احسن اقبال نے اس ہفتے کے اوائل میں مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ دائر کرنے کےلئے حکومت کو اڑتالیس گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی تھی تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی مداخلت اور وزیر داخلہ رحمان ملک کے سرکاری دورہ سعودی عرب کے موقع پر ہی ن لیگ نے ڈیڈ لائن کا الٹی میٹم واپس لے لیا ۔ اس کی ایک اور بنیادی وجہ گزشتہ برس اگست میں امریکہ اور سعودی عرب کی وہ ضمانتیں تھیں، جن کے تحت صدر مشرف کو استعفے کے بعد کسی انتقامی مہم یا مقدمے بازی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
خیال رہے کہ سعودی شہزادہ مکرم، برطانوی سفارتکار مارک لائل گرانٹ، امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر اور امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن جنرل مشرف کی اقتدار سے باعزت رخصتی اور مقدموں سے تحفظ کی ضمانت کے حصول میں پیش پیش رہے۔
رپورٹ: امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت: ندیم گِل