افغان حکام نے ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق کر دی
22 مئی 2016افغان صدر اشرف غنی کے قائم مقام ترجمان سید ظفر ہاشمی نے قطر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکا کا ڈرون حملہ افغان حکام کو اعتماد میں لیتے ہوئےکیا گیا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں: ’’ڈرون حملہ کامیاب رہا۔ ہم اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔‘‘
''ہمیں امید ہے کہ نئی صورت حال افغان امن عمل کے لیے مثبت ثابت ہو گی اور ملک میں امن اور استحکام پیدا ہوگا۔‘‘
افغان انٹیلیجنس ایجنسی نے بھی امریکی حملے میں ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ جان کیری، جو میانمار کے دورے پر ہیں، نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے اس حملے کے بارے میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی کو اطلاع دے دی تھی۔
کیری کا کہنا تھا کہ ملا منصور افغانستان میں امریکی افواج اور افغانوں کے لیے ایک مسلسل خطرہ تھا۔
واشنگٹن میں امریکی حکام نے کہا کہ ڈرون حملہ پاکستان کے اندر افغان سرحد کے قریب کیا گیا تھا، اور حملے کی باضابطہ منظوری امریکی صدر باراک اوباما نے دی تھی۔
اس بارے میں جان کیری کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری کارروائی سے دنیا کو واضح پیغام جاتا ہے کہ ہم افغان حکام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ایک مستحکم، محفوظ اور ترقی یافتہ افغانستان کے قیام کے لیے کوششیں کرتے رہیں گے۔‘‘
''ہم امن چاہتے ہیں اور منصور اس امن کے قیام میں ایک رکاوٹ تھا۔ وہ افغان امن مذاکرت کے بھی خلاف تھا۔‘‘
منصور پاکستان میں کیا کر رہا تھا؟
دوسری جانب پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے امریکا سے اس ڈرون حملے کے متعلق وضاحت طلب کی ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لا سکے، اور فوجی کارروائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی۔
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور پاکستانی فوجی قیادت کے ناقد حسین حقانی نے اپنے ٹوئٹر پیغامات میں کہا ہے کہ بین الاقوامی سطح کے ’دہشت گردوں‘ کو ملک میں پناہ دینے کا عمل بھی ملکی خود مختاری کے خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے پاکستانی حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کب امریکا سے یہ کہتا ہے کہ ’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہماری خود مختاری کو چیلنج کرنے کی‘، جس کا مقصد اس بات سے توجہ ہٹانا ہوگا کہ ایک غیر ملکی شدت پسند پاکستان میں کیا کر رہا تھا۔