’افغان مفاہمتی کوششیں، پاکستان کا کردار انتہائی اہم‘
3 اگست 2011پاکستانی سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر اور نائب افغان وزیر خارجہ جاوید لودن کے ساتھ گروس مین کی بات چیت کا اصل مقصد افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو مربوط بنانا تھا۔ بعد ازاں امریکی مندوب نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان اُن پابندیوں پر پائے جانے والے اختلافات کو بھی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو اسلام آباد حکومت کی جانب سے ملک میں موجود امریکی سفارت کاروں پر عائد کی گئی ہیں۔
پاکستان کا موقف ہے کہ یہ پابندیاں سلامتی کے اقدامات کے طور پر متعارف کروائی گئی ہیں جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات امریکی سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کے مترادف معلوم ہوتے ہیں۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکی سفارتکاروں کو جن ضوابط کا پابند کیا گیا ہے اور اسلام آباد چھوڑنے سے پہلے اُنہیں جو ’این او سی‘ لینے کے لیے کہا گیا ہے، وہ نہ تو کوئی نیا اقدام ہے اور نہ ہی وہ خاص طور پر صرف اور صرف امریکی سفارت کاروں کے لیے ہے۔ مزید یہ کہ ان ضوابط کا مقصد ایک ایسی فضا میں سفارت کاروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے، جہاں مسلمان عسکریت پسند جگہ جگہ بم حملے اور خود کُش کارروائیاں کر رہے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ کا کہنا یہ ہے کہ اُس نے لاہور، کراچی اور پشاور میں اپنے قونصل خانے قائم کر رکھے ہیں اور اس صورت میں تو ویانا کنونشن خاص طور پر سفارت کاروں کو نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے۔
دو مئی کو ایبٹ آباد میں ایک خصوصی امریکی فوجی یونٹ کے ہاتھوں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کافی حد تک خراب ہو چکے ہیں اور امریکی سفارتکاروں پر عائد کی گئی پابندیاں کشیدہ تعلقات کے سلسلے ہی کی ایک نئی کڑی معلوم ہوتی ہیں۔
اسلام آباد میں خصوصی امریکی مندوب برائے پاکستان اور افغانستان مارک گروس مین نے کہا کہ حکومت پاکستان کے کچھ ضابطے ہیں اور بات چیت کے ذریعے یہ جانچنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیسے ان تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے گروس مین نے کہا:’’مجھے پورا یقین ہے کہ ہم ایسا کرنے میں اور کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، جس کے تحت حکومت پاکستان کے ضابطے بھی پورے ہو سکیں اور امریکی سفارت کار بھی پاکستان میں آزادی سے سفر کر سکیں۔‘‘
دو مئی کے بعد پاکستان نے ملک میں نہ صرف امریکی تربیت کاروں کی تعداد کم کر دی بلکہ سی آئی اے کی سرگرمیوں کو بھی محدود بنا دیا۔ جواب میں امریکہ نے گزشتہ مہینے پاکستان کے لیے 2.7 ارب کی مجوزہ دفاعی امداد میں سے ایک تہائی امداد معطل کر دی۔
پاکستانی سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر اور مارک گروس مین دونوں نے افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے سلسلے میں ایک ایسے مفاہمتی عمل کی تائید و حمایت کی، جس کی باگ ڈور ہر لحاظ سے مکمل طور پر افغانوں کے اپنے ہاتھوں میں ہو۔ گروس مین نے کہا:’’میرے نقطہ نظر کے مطابق یہ کور گروپ (تین ملکوں کا) اُن منفرد کوششوں اور اُس اہم کردار پر زور دیتا ہے، جو پاکستان اس مفاہمتی عمل میں ادا کر رہا ہے۔‘‘
نائب افغان وزیر خارجہ جاوید لودن نے کہا کہ مفاہمتی عمل موجودہ افغان حکومت کی واحد اہم ترین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کا تعاون درکار ہے۔ لودن نے کہا کہ پاکستان اُن طالبان قائدین کی حوصلہ افزائی کرنے کے سلسلے میں مدد دے سکتا ہے، جنہیں ممکنہ طور پر اس مفاہمتی عمل کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: عاطف توقیر