افغان پارلیمان اور خواتین کو درپیش مسائل
30 دسمبر 2010افغان پارلیمنٹ میں مجموعی طور پر 249 سیٹیں ہیں، جن میں سے 68 خواتین کے لئے مختص ہیں۔ گزشتہ ستمبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد مقررہ کوٹے سے ایک خاتون زیادہ یعنی 69 خواتین منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچیں۔ منتخب ارکان اسمبلی میں سے ایک صدیقہ مبارز بھی ہیں۔ ان کا تعلق افغانستان کے ایک مرکزی صوبے وردک سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات خواتین کے لئے ایک واضح کامیابی تھے۔’’اگر ایک عورت خاندان کی قیادت کر سکتی ہے تو وہ ایک معاشرے کی رہنما بھی بن سکتی ہے۔ اگر آپ انتخابات کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ زیادہ تر خواتین کو دوبارہ منتخب کیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خواتین سیاست میں آنے کی استعداد بھی رکھتی ہیں اور لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔ ہم میں بہت کچھ کرنے کی صلاحیت ہے اور ہم تبدیلی بھی لانا چاہتی ہیں۔‘‘
لفظ ’تبدیلی‘ انتخابات سے پہلے بہت سے سیاستدانوں کا نعرہ تھا۔ تقریباﹰ چار سو خواتین نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔ پانچ برس پہلے کی نسبت یہ تعداد 70 فیصد زیادہ تھی۔ رکن اسمبلی فوزیہ کوفی کا کہنا ہے کہ مرد پارلیمانی ارکان خواتین کی بات کو اسمبلی میں سنجیدگی سے نہیں سنتے بلکہ خواتین کو جان بوجھ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔’’ہمیں پارلیمنٹ میں بات کرنے کا وقت بھی کم دیا جاتا ہے۔ ہماری عزت اور وقار کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کے علاوہ ہمیں دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔‘‘
دوسری مرتبہ منتخب ہونے والی صدیقہ مبارز کا کہنا ہے کہ خاتون سیاستدانوں کو انتہائی زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے حوالے سے ایسی باتیں بھی پھیلا دی جاتی ہیں کہ خواتین کو ووٹ دینا گناہ ہے۔ ’’چند افراد ہمارے خاندانوں اور قبیلوں کو بھی ہمارے خلاف بھڑکانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔‘‘ سیاسی تجزیہ نگار اینڈریو فلیشن برگ کا کہنا ہے کہ روایتی افغان معاشرے میں کوئی بھی تبدیلی اتنی آسانی سے نہیں لائی جا سکتی، لیکن پارلیمنٹ میں خواتین کا کوٹہ مختص کرنے کی صورت میں پہلا قدم بہرحال اٹھایا جا چکا ہے۔
رپورٹ: جولیا ہان / امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک