اقوام متحدہ پاکستان پر دباؤ بڑھائے، امریکا
18 جنوری 2018گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے چودہ رکنی وفد نے کابل میں افغان رہنماؤں سے ایک ایسے وقت ملاقات کی جب کابل حکومت طالبان سے امن مذاکرات کر کے ملک میں قیام امن کی کوششوں میں ہے۔ اس عالمی ادارے میں امریکی سفیر نکی ہیلی بھی افغانستان کا دورہ کرنے والے وفد کا حصہ تھیں۔
افغان طالبان کا مذاکراتی وفد پاکستان میں، ’بات چیت مری میں‘
دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کوششیں، امریکی وفد کی بریفنگ
دورے کے بعد یو این ہیڈ کواٹرز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ افغان حکومت ’کو پورا یقین ہے کہ طالبان مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے‘۔ طالبان کے ساتھ یہ ممکنہ مذاکرات اگرچہ افغان حکومت ہی کی قیادت میں ہونا ہیں لیکن سکیورٹی کونسل کے وفد سے ملاقات کے دوران افغان رہنماؤں نے ان سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ اسلام آباد کو بھی ساتھ ملانے کے لیے کابل حکومت کی مدد کریں۔
افغان رہنماؤں کی پاکستان کے بارے میں ہونے والی گفتگو کے حوالےسے نکی ہیلی کا کہنا تھا، ’’انہوں نے وفد کے ارکان سے کہا کہ پاکستان کو مذاکرات کی میز پر آنے اور اپنا رویہ تبدیل کرنے کے لیے عالمی برادری اسلام آباد پر دباؤ میں مزید اضافہ کرے۔‘‘
نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ کابل حکام ملک میں امن اور استحکام کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں اور ’وہ اس ضمن میں دس قدم آگے جاتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مسلسل پیچھے ہٹ رہا ہے‘۔ نکی ہیلی نے مزیدکہا، ’’جب تک پاکستان اپنے ہاں دہشت گردوں کی مدد کرتا رہے گا، افغانستان کے عوام خود کو محفوظ نہیں سمجھیں گے۔‘‘
نکی ہیلی نے تاہم اس ضمن میں یہ نہیں بتایا کہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ممکنہ طور پر کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں تاہم کسی ملک پر دباؤ بڑھانے کے لیے سکیورٹی کونسل عام طور پر پابندیاں عائد کرتی ہے۔
امریکا، افغانستان اور کئی دیگر ممالک پاکستان پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں لیکن پاکستان ایسے الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر پاکستان کو فراہم کی جانے والی عسکری امداد روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق پاکستانی خفیہ ادارے افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے طالبان کے مختلف گروہوں کو عسکری تربیت کے علاوہ مالی امداد بھی فراہم کر رہے ہیں۔