’الزائمر کی تشخیص فقط بلڈ ٹیسٹ سے ممکن‘
2 فروری 2018سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس مشترکہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جسم میں وہ زہریلا پروٹین امیلوئڈ بیٹا جسے الزائمر کی وجہ قرار دیا جاتا ہے، اس ٹیسٹ کے ذریعے سے جانچا جا سکتا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ٹیسٹ کے ذریعے خون میں اس پروٹین کی موجودگی نوے فیصد سے زائد درست انداز سے کی جا سکتی ہے۔
پارکنسن: جب تک تشخیص ہوتی ہے، بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے
الزائمر کی نئی امید افزا تھراپی
پانچ مشوروں پر عمل کر کے یادداشت کھونے سے بچیں
اس تحقیق میں 252 آسٹریلوی اور 121 جاپانی مریضوں کا مطالعہ کیا گیا، جن کی عمریں ساٹھ سے نوے برس کے دوران تھیں۔ ان افراد میں سے کچھ وہ تھے جو دماغی طور پر نارمل تھے، کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں مشکلات کا شکار اور کچھ الزائمر کا شکار تھے۔
محققین کے مطابق خون کے اس تجزیے سے جس میں امیلوئڈ بیٹا کی موجودگی کا پتا چلایا جا سکتا ہے، بے حد سستا ہو ہو جائے گا اور اس سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ کوئی شخص کس حد تک الزائمر کی جانب بڑھ رہا ہے یا بڑھ چکا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ الزائمر کے لیے اس وقت دماغ کا اسکین اور انویسیو کیریبرواسپائنل فلوئڈ ٹیسٹ کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی سے مائعات کے نمونے لے کر ان کا جائزہ لیا جاتا ہے، جس سے یہ معلوم ہو کہ جسم میں غیرعمومی پروٹین کس حد تک پایا جاتا ہے۔ اسی سے دماغی فعالیت یا غیرفعالیت کا علم ہو سکتا ہے۔
محققین کے مطابق دماغ میں موجود امیلوئڈ بیٹا نامی پروٹین کی موجودگی دماغی فعالیت کو منفی انداز سے متاثر کرتی ہے، تاہم دماغی اسکین اور دیگر طریقوں پر آنے والا خرچ نو سو ڈالر سے زائد کا ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ خون کا ایک سستا سا جائزہ الزائمر کے خطرات سے دوچار مریضوں کو اس بیماری سے بچانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے اور ان افراد کو یہ بیماری لاحق ہونے سے قبل ہی نئی ادویات کے ذریعے بچایا جا سکتا ہے یا اس بیماری کے خلاف جنگ میں مدد دی جا سکتی ہے۔