القاعدہ: اسامہ بن لادن کے بعد
3 مئی 2011خبررساں ادارے روئٹرز نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت القاعدہ کے لیے ایک بڑا نفسیاتی دھچکا ہو گی، لیکن اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ گروپ بڑی حد تک مرکزیت کھوتا جا رہا ہے۔ ویسے بھی یہ گروپ سالوں سے اسامہ کے بغیر ہی چل رہا ہے۔
امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کو تقریباﹰ 10 برس بیت چکے ہیں اور اب القاعدہ عالمی سطح پر منتشر خومختار گروپوں میں بٹ چکا ہے۔ اس میں اسامہ کو ایک ایسی مرکزی شخصیت کی حیثیت ضرور حاصل رہی ہے، جو محرک کے طور پر سامنے رہی۔
روئٹرز کے مطابق انسداد دہشت گردی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ القاعدہ بڑی حد تک منتشر تحریک کا روپ اختیار کر چکی ہے، جسے نشانہ بنانا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ نیٹ ورک مسلسل خطرہ ہے، تاہم اس کی مرکزی قیادت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں کی وجہ سے کمزور پڑ چکی ہے۔ یہ گروہ جولائی 2005ء کے لندن دھماکوں کے بعد مغرب میں کوئی کامیاب دہشت گردانہ حملہ نہیں کر سکا۔
عرب دنیا میں سیاسی بحرانوں سے بھی القاعدہ کو نظریاتی نقصان پہنچا ہے۔ مصر، تیونس، لیبیا، بحرین اور شام جیسے ملکوں میں عوام طویل عرصے سے برسر اقتدار حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کو یقینی بنائے جانے کے مطالبے لیے ہوئے ہیں، جو لادن کے مؤقف کے برعکس ہیں۔ لادن نے کچھ عرصہ قبل جمہوریت کو بت برستی کے مترادف قرار دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسے طرز حکومت سے انسانی خواہشات کو خدا کی مرضی پر برتری حاصل ہوتی ہے۔
دوسری جانب امریکی حکام کے مطابق ان کے لیے بڑا خطرہ بن کر ابھرنے والا القاعدہ سے منسلک گروپ al-Qaeda in the Arabian Peninsula (اے کیو اے پی) ہے۔ 2009ء میں یورپ سے امریکہ جانے والے ایک مسافر طیارے کو کرسمس کے روز بم سے اڑانے کا منصوبہ بنانے کی ذمہ داری اسی گروپ نے قبول کی تھی۔
امریکہ کے سابق انٹیلی جنس اہلکار پاؤل پلر نے روئٹرز کو بتایا، ’جہاں تک القاعدہ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سوال ہے، اس میں کچھ عرصے سے بن لادن کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں تھی۔‘
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: افسر اعوان