الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ: قانون کی حکمرانی یا مصلحت کا نتیجہ؟
1 اکتوبر 2010الہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل بنچ نے بابری مسجد کے حق ملکیت سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کر کے فریقین کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماہرین قانون کہتے ہیں کہ اس فیصلے کو مصلحت اندیشی تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے ’’قانون کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔‘‘
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے ایم احمدی سوال کرتے ہیں کہ اگر مسجد کی اراضی پر سنی سنٹرل وقف کا دعویٰ غلط تھا تو عدالت نے اسے ایک تہائی زمین کاحقدار کیوں قرار دیا اور اگر اس کا دعویٰ درست تھا تو دوسروں کو زمین میں حصے دار کیوں بنایا۔ جسٹس احمدی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کسی عدالت کا نہیں بلکہ کسی پنچایت کا لگتا ہے۔ بعض دوسرے قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تو ذات برادری کے معاملات کا فیصلہ کرنے والے کسی ’کھاپ‘ کا فیصلہ نظرآتا ہے، جہاں ’’فیصلہ کرنے والے مدعی کی کوئی بات نہیں سنتے۔‘‘
دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ یہ نہایت ہی عجیب فیصلہ ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں 1949 میں مورتیاں غیر قانونی طور پر رکھی گئیں، اس کو جائز ٹھہرانا اور مندر بنوانا قانونی دائرہ اختیار سے باہر ہے۔اس سے پہلے رام چبوترے کو چھوڑ کر سارا علاقہ مسجد تھا، اگرمندر کو زمین دینی ہی تھی تو رام چبوترے پر دی جاسکتی تھی۔
اس کے علاوہ law of limitation کے اطلاق سے بھی اس پر سنی وقف بورڈ کا حق بنتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال غیر منقسم پنجاب کی مسجد شہید گنج تھی، جس کو 1860 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے گردوارہ بنا دیا تھا۔ بعد میں جب مسلما نوں نے اس پر اپنا حق جتایا تو اس وقت کی پریوی کونسل نے اسے گردوارہ ہی مانا تھا۔ وہ ابھی تک گردوارہ ہی ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس وی این کھرے کا خیال ہے کہ چونکہ یہ زمین مرکزی حکومت نے ایکوائرکی تھی اس لئے عدالت کو اس پر حق ملکیت کے معاملے میں غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ اس زمین کا حق اب کسی کے پاس نہیں بلکہ حکومت کے پاس ہے۔
قانونی ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اگر عدالت کو ایسا فیصلہ دینے کی کوئی مجبوری تھی، تب بھی اسے اپنے فیصلے میں یہ ضرور واضح کرنا چاہئے تھا کہ یہ فیصلہ خصوصی حالت کے مدنظر دیا جارہا ہے اور اسے مستقبل کے لئے مثال نہ بنایا جائے کیونکہ عقیدے کی روشنی میں فیصلہ سنانے سے بابری مسجد رام جنم بھومی کا معاملہ تو باقی رہے گا ہی، لیکن اس کے ساتھ ہی مزید نئے تنازعات بھی سر اٹھانے لگیں گے۔ ان ماہرین کے بقول یوں ملک میں بیشتر مذہبی مقامات اور تاریخی عمارتوں کی حییثیت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
نئی دہلی میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اپنے آپ میں کوئی نیا فیصلہ نہیں ہے۔ یہ دراصل فریقین کو رام کرنے کی کوشش ہے اور اس طرح کی کوششیں ماضی میں آنجہانی وزیر اعظم وشو ناتھ پرتاپ سنگھ اور چندر شیکھر اپنے اپنے دور حکومت میں کر چکے ہیں۔
بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے والی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عدالت کے فیصلے پر غور کرنے کے لئے نئی دہلی میں نو اکتوبرکو قانونی ماہرین کی ایک میٹنگ طلب کی ہے، جس کی تجویز پر بورڈ کی51 رکنی مجلس عاملہ 16 اکتوبر کو اپنے ایک اجلاس میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے گی۔ تاہم بورڈ کے اکثریتی اراکین کی رائے ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا جائے۔
بابری مسجد کیس میں سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا کہ یہ معاملہ اب ایک مرحلے سے آگے بڑھ چکا ہے۔ ’’عملاﹰ عدالت نے مانا ہے کہ وہاں پر ایک مسجد تھی۔ پھر دوسرے فریق کا حق کہاں سے بنتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسری طرف سے کیا مثبت تجویز آتی ہے۔ ہم اس کو شریعت کے دائرے میں قبول کریں گے ورنہ ہمیں سپریم کورٹ کا فیصلہ منظور ہوگا۔‘‘
دیگر مسلم تنظیموں نے بھی گوکہ عدالت کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے تاہم مسلمانوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی اور کہا کہ انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کی بازیابی کی کوششیں جمہوری طریقے سے جاری رکھی جائیں گی۔
ادھر مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عوام کے صبر و تحمل کو سراہتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا حق فطری طور پر سب کو ہے، اس لئے اگلے کچھ دنوں یا ہفتوں میں سپریم کورٹ میں مزید عرضیاں آئیں گی اور پھر عدالت عظمیٰ اس پر عبوری حکم جاری کرتے ہوئے معاملے کی سماعت کرے گی۔
وزیر داخلہ نے ان قیاس آرائیوں کو بے بنیاد قرار دیا کہ الہ آبا د ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد کے انہدام کا کیس کمزور پڑ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کا معاملہ ایک مجرمانہ معاملہ تھا اور یہ ایک مجرمانہ معاملہ ہی رہے گا۔ خیال رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر رہنما لال کرشن ایڈوانی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت کئی ہندو رہنما اس کیس میں ملوث ہیں۔ وزیر داخلہ پی چدمبر م نے بابری مسجد انہدام کی انکوائری کرنے والے جسٹس لبراہن کمیشن کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کا انہدام ایک غیرقانونی حرکت تھی اور یہ ایسے لوگوں کا کام تھا جنہوں نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے گو کہ مسلمان خوش نہیں ہیں تاہم انہیں اس بات سے قدرے اطمینان ہے کہ اس مرتبہ فرقہ پرستوں کو ان کی جان ومال کے خلاف کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک بھر میں فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، جن میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔
قومی اقلیتی کمیشن کی رکن زویا حسن نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ جو بات 1992 میں دیکھنے میں آئی تھی اس بار نہیں آئی ہے۔ لیکن اگلے چند دنوں میں جب سکیورٹی فورسز واپس جائیں گی، کس طرح کی صور تحال ہو گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ ’’یہ بات صیحح ہے کہ 1992 سے لے کر اب تک کافی تبدیلی آچکی ہے۔ اس فیصلے کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ کسی طرح سے ا س مسئلے کو داخل دفتر کیا جائے اور اس کا حل ایک مشترکہ حق ملکیت کے ذریعے ڈھونڈا جائے اور یہ اس کی شروعات ہے۔‘‘
آج ملک بھر میں امن و سکون رہا۔ کہیں سے کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔ تاہم سکیورٹی اہلکار ہر جگہ چوکس رہے جبکہ ملک کے تمام حساس علاقوں میں ابھی کئی دنوں تک انہیں چوکنا رکھا جائے گا۔ انتظامیہ نے احتیاطاﹰ پورے ملک میں ہزاروں ناپسندیدہ اور سماج دشمن عناصر کو حراست میں لے لیا ہے۔ تمام بڑے شہروں میں سکیورٹی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی میں بھی پولیس سخت نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ یہاں تین اکتوبر سے شروع ہونے والے کامن ویلتھ گیمز کے مدنظر تمام تھانوں کو الرٹ کردیا گیا ہے اور شہر میں تقریباﹰ ڈھائی لاکھ سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: عصمت جبیں