امريکہ پاکستان ميں دوبارہ کارروائی کر سکتا ہے، وائٹ ہاؤس
5 مئی 2011پاکستان کی ان شکايات کے باوجود کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی امريکی کارروائی ناجائز اور يکطرفہ تھی، اوباما کے ترجمان جے کارنی نے کہا کہ اگر مزيد مفرور افراد پاکستان ميں پائے گئے تو امريکی صدر اُن کے خلاف بھی کارروائی کريں گے۔
جے کارنی نے صحافيوں سے کہا: ’’صدر نے کہا ہے کہ يہ اُن کا نقطہء نظر ہے۔ وہ سمجھتے ہيں کہ صدر کی حيثيت سے انہوں نے جو اقدامات کيے ہيں وہ صحيح ہيں اور وہ اسی سوچ پر قائم ہيں۔‘‘
اس وقت کے سينيٹر باراک اوباما نے اپنی سن 2008 کی صدارتی انتخاباتی مہم ميں کہا تھا کہ اگر پاکستانی قيادت کوئی ايکشن لينے پر’غيرآمادہ يا اس کی نا اہل‘ ہوئی تو وہ پاکستان ميں القاعدہ کے اعلٰی رہنماؤں کے خلاف خود امريکی کارروائی کا حکم ديں گے۔ اُن کے مد مقابل ريپبلکن پارٹی کے صدارتی اميدوار سينيٹر مک کين نے اس پر تنقيد کرتے ہوئے اوباما پر الزام لگايا تھا کہ وہ ايک دوست ملک کو دھمکی دے رہے تھے اور انہوں نے يہ مشورہ ديا تھا کہ اگر پاکستان ميں کوئی ہدف سامنے آئے تو ’پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کارروائی کی جائے‘
اوباما نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے پاکستان کے اندر دور تک بغير پائلٹ والے ڈرون طياروں کے حملوں ميں نماياں اضافہ کيا ہے، حالانکہ پاکستان نے ان پر مسلسل احتجاج بھی کيا ہے کہ يہ حملے اُس کی خود مختاری کے خلاف ہيں۔ پچھلے سال ان 100سے زائد ڈرون حملوں ميں 670 سے زيادہ افراد ہلاک ہوئے۔
امريکی حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کو دنيا کے سب سے زيادہ مطلوب شخص کو ايبٹ آباد ميں فوجی اکيڈمی کے قريب ہلاک کرنے کے امريکی آپريشن کی پاکستانی حکام کو کوئی پيشگی اطلاع نہيں دی گئی تھی۔ سی آئی اے کے ڈائريکٹر ليون پينيٹا نے کہا کہ امريکہ کو يہ خدشہ تھا کہ اگر پاکستانی حکام کو اس کی اطلاع دی گئی تو وہ بن لادن کو خبردار کر ديں گے۔
اتوار کی امريکی فوجی کارروائی کے بعد سے پاکستان کو اپنا دفاع کرنا پڑرہا ہے اور وزير اعظم يوسف رضا گيلانی نے کہا ہے کہ بن لادن کو اس سے پہلے ہی نہ پکڑ سکنے کی ذمہ داری امريکہ سميت دوسرے ممالک پر بھی عائد ہوتی ہے۔
امريکہ کی پاکستان کے ساتھ رفاقت دشوار نوعيت کی ہے۔ پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت کی حمايت کی تھی، ليکن 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اُس نے راتوں رات طالبان کی حمايت ختم کردی تھی۔
اس کے بعد سے امريکہ پاکستان کو تقريباً 18 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے، جس کا زيادہ تر حصہ فوج پر خرچ ہوا ہے۔ ليکن اوباما کی مدد سے امريکی کانگريس نے سن 2009 ميں 7.5 ارب ڈالر امداد کا ايک پانچ سالہ منصوبہ منظور کيا، جس کا مقصد پاکستان ميں اسکولوں،سڑکوں اور جمہوری اداروں کی تعميرو ترقی تھا۔ بن لادن کے خلاف آپريشن کے بعد امريکی کانگريس اور سينيٹ کے اراکين غصے ميں آئے ہوئے ہيں اور پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا مطالبہ کررہے ہيں۔ اُن کا الزام ہے کہ پاکستان عسکريت پسندوں کی مدد کا دہرا کھيل کھيل رہا ہے۔ ليکن اوباما انتظاميہ اس سلسلے ميں محتاط ہے اور صدارتی ترجمان کارنی نے بدھ کہا کہ پاکستان ميں دنيا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زيادہ انتہا پسندوں کو ہلاک کيا گيا ہے۔ کارنی نے کہا: ’’جنگ ابھی جاری ہے اور ہم مستقبل ميں بھی پاکستان سے تعاون کی اميد رکھتے ہيں۔ اس سلسلے ميں پاکستان نے ہم سے جو تعاون کيا ہے، وہ بہت مفيد ثابت ہوا ہے۔‘‘
خارجہ تعلقات کی کونسل کے ايک سينئر رکن مارکی نے خبردار کيا کہ امريکہ کو موجودہ صورتحال سے بہت احتياط سے نمٹنا ہوگا۔ انہوں نے کہا: ’’پاکستانی فوج اس ملک کا اہم ترين ادارہ ہے اور بن لادن کے خلاف امريکی فوجی کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کو اپنی عزت اور وقار کو بچانے کا چيلنج درپيش ہے۔‘‘
مارکی نے کہا کہ ايٹمی ہتھياروں سے ليس پاکستان، جس ميں بہت غربت اور امريکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہيں، امريکی مفادات کے ليے نہايت اہم ہے۔ اگر حالات تبديل نہيں ہوتے تو اس ملک کے غريب اور کم تعليم يافتہ عوام زيادہ تر غلط باتوں کی طرف ہی متوجہ ہوسکتے ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک
.