امریکا میں ٹیسٹ ٹیوب بچوں کی پیدائش کا نیا ریکارڈ
18 فروری 2014امریکا میں 2012ء میں ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی کی مدد سے پیدا ہونے والے بچوں کی سالانہ تعداد ماضی کے کسی بھی دوسرے سال کے مقابلے میں زیادہ رہی۔ اس طبی ٹیکنالوجی کی ایجاد کے بعد سے امریکا میں ایسے بچوں کی پیدائش کے اعتبار سے 2012ء ایک ریکارڈ سال ثابت ہوا۔
امریکا کی سوسائٹی فار اسِسٹِڈ ریپروڈکٹو ٹیکنالوجی SART کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 1980ء کے عشرے میں متعارف کرائی جانے والی ٹیسٹ ٹیوب بےبی ٹیکنالوجی کی مدد سے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 2012 میں سب سے زیادہ رہی۔ اس تنظیم کی رکن علاج گاہوں کی تعداد 379 ہے جو بانجھ پن کے علاج کے لیے کام کرنے والے تمام کلینکس میں سے 90 فیصد سے زائد کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس سوسائٹی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق طبی ماہرین نے 2012 ء میں ٹیسٹ ٹیوب بچوں کی پیدائش کے لیے بروئے کار لائے جانے والے اس مصنوعی طریقہ کار کے استعمال سے، جسے اِن ویٹرو فرٹیلائزیشن کہا جاتا ہے، 165,172 کیسز کا تجربہ کیا جس کے نتیجے میں 61,740 بچے پیدا ہوئے۔
اِن ویٹرو فرٹیلائزیشن
تولیدی ٹیکنالوجی کے دیگر ذرائع ناکام ہو جانے کے بعد اِن ویٹرو فرٹیلائزشن کی تکنیک بروئے کار لائی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار میں بیضہ عطیہ کرنے والی خاتون یا ماں بننے کی خواہشمند عورت کے رحم سے بیضہ نکال کر لیبارٹری میں مردانہ تولیدی جرثومے کے ساتھ اختلاط کے بعد نشو و نما کے لیے شیشے کی ایک ٹیوب میں رکھا جاتا ہے۔ دو سے چھ روز تک اسے پختہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر اس مادے کو دوبارہ عورت کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ٹیسٹ ٹیوب بچوں کا رجحان
2011 ء کے مقابلے میں 2012 ء میں اِن ویٹرو فرٹیلائزیشن یا IVF ٹیکنالوجی کی مدد سے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 2000 زیادہ تھی۔ یہ شرح اس سال امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد کا ڈیرھ فیصد بنتی ہے، جو ماضی کے مقابلے میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔
ٹیسٹ ٹیوب بے بیز کی پیدائش کی شرح میں اضافہ اس امر کی نشاندہی بھی کر رہا ہے کہ امریکا کے ترقی یافتہ معاشرے میں پہلے بچے کی پیدائش کے وقت ماں کی اوسط عمر 26 سال ہو گئی ہے جبکہ 70 کے عشرے میں پہلے بچے کی ماں بننے والی عورتوں کی اوسط عمر 21 سے 22 سال کے درمیان ہوا کرتی تھی۔ ٹیسٹ ٹیوب بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافہ اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ یہ طریقہ تولید معاشرے کے مرکزی دھارے کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ تاہم اِن ویٹرو فرٹیلائزیشن کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس رجحان میں اضافے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ اس ٹیکنالوجی کی کامیابی کی شرح کے بارے میں وسیع تفاوت بھی پایا جاتا ہے۔2013 ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب Cracked Open: Liberty,Fertility and the Pursuit of High Tech Babies کی مصنفہ میریم سول کہتی ہیں، ’’یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ 35 سال کی عمر کے بعد ماں بننے والی خواتین کو حمل کی کامیابی میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور اِن ویٹرو فرٹیلائزیشن کے طریقہ کار کی ناکامی کی شرح بھی اسی عمر کی خواتین میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ماں بننے والی عورت کی عمر کی اہمیت
امریکی سوسائٹی SART کی طرف سے ماضی میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق 35 سال سے کم عمر کی خواتین میں اِن ویٹرو فرٹیلائزیشن کے ذریعے زندہ بچے کی پیدائش کے امکانات 42 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ پہلا ٹیسٹ ٹیوب بے بی 1978ء میں برطانیہ میں پیدا ہوا تھا۔ میریم کا کہنا ہے کہ تب سے اب تک اِن ویٹرو فرٹیلائزیشن سے زندہ بچوں کی پیدائش کی کوششیں مسلسل دو تہائی حد تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔