’امریکا نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنا لیا ہے‘
20 دسمبر 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر 18 دسمبر کو اپنی پہلی قومی سکیورٹی پالیسی کا اعلان کیا جس میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر کہا گیا ہے کہ امریکا کے ساتھ اپنا اتحاد قائم رکھنے کے لیے اسے اپنی سر زمین پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں تیزی لانا ہوگی۔ امریکا نے پاکستان کو خبردار بھی کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کا ممکنہ جوہری تنازعہ واشنگٹن کے لیے باعث فکر ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکا کی اس پالیسی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ امریکا کی قومی سکیورٹی اسٹریٹیجی میں پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ پاکستان ایسے الزمات کو مسترد کرتا ہے جو زمینی حقائق کے متصادم ہیں اور جو دہشت گردی کے خلاف جنگ، امن کی بحالی اور خطے میں استحکام کے لیے دی جانے والی پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔‘‘
میٹِس کا پاکستان سے ’ڈُو مور‘ کا مطالبہ
پاکستانی رویے میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی، اعلیٰ امریکی جنرل
پاکستان میں تجزیہ کاروں نے بھی امریکا کے پاکستان کے حوالے سے اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار امتیاز گل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنا لیا ہے، پاکستان کو معلوم ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔‘‘ امتیاز گل نے کہا کہ امریکا نے اپنے بیان سے اس امر کو تقویت دی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت پاکستان کو جوہری ہتھیاروں سے محروم کرنا چاہتی ہے، اس لیے مختلف بہانے گڑھے جا رہے ہیں۔ امتیاز گل کا کہنا تھا، ’’بین الاقوامی تنظیم ’ آئی اے ای اے‘ پاکستان کے جوہری پروگرام پر تسلی کا اظہار کر چکی ہے۔‘‘ امتیاز گل نے یہ بھی کہا کہ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی طاقت چین پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے اور وہ پاکستان کے موقف کو سمجھتی ہے۔
امریکی صدر کا نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیوں کہ امریکا پاکستان کو امداد فراہم کرتا ہے اس لیے پاکستان پر لازم ہے کہ وہ امریکا کی مدد کرے۔ اس حوالے سے امتیاز گل کا کہنا ہے، ’’پاکستان کو امریکی امدد نہیں چاہیے۔ پاکستان کو امریکی امداد سے نقصان پہنچا ہے، دنیا نے اس امداد کی وجہ سے پاکستان کو ہمیشہ امریکا کی نظرسے دیکھا ہے۔‘‘
امریکا کی جانب سے یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ مستقبل میں اگر امریکا نے بہتر سمجھا تو شدت پسندوں کو پاکستان کی سر زمین پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس نقطے پر روشنی ڈالتے ہوئے تجزیہ کار ایس ایم ہالی نے کہا، ’’امریکا میں ٹرمپ کے بجائے اگر کوئی اور صدر ہوتا تو صورتحال کچھ اور ہوتی۔ لیکن یہ بات اہم ہے کہ امریکا میں ایک نظام قائم ہے جوصدر ٹرمپ کو پاکستان کے خلاف کوئی بہت ہی سنگین قدم اٹھانے کی اجازت نہیں دے گا، اور اگر ایسا کچھ ہوا تو پاکستان کے پاس بھی مناسب حکمت عملی ہوگی۔‘‘