USA Obama Pleite
30 جون 2011اگست کے اوائل تک امریکی حکومت کو ریاستی قرضوں کی اگلی قسط واپَس ادا کرنی ہے۔ چونکہ خزانے میں پیسہ کم ہے، اِس لیے یہ ادائیگی نئے قرضے لے کر ہی کی جا سکتی ہے۔ تاہم حکومت پہلے ہی قرضوں کی زیادہ سے زیادہ حد کو عبور کر چکی ہے اور جب تک کوئی نئی زیادہ اونچی حد مقرر نہیں کی جاتی، حکومت مزید قرضے لے ہی نہیں سکتی۔
یہ نئی حد اپوزیشن ری پیلکن ارکان کی رضامندی کے بغیر مقرر نہیں کی جا سکتی، اِس لیے صدر باراک اوباما نے ری پبلکنز سے حکومت کا ساتھ دینے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ دو اگست تک زیادہ سے زیادہ قرضوں کی حد بڑھا دی جائے ورنہ امریکہ ریاستی طور پر دیوالیہ قرار پائے گا۔ اوباما نے کہا:’’اگر امریکی حکومت اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے بل ادا نہ کر سکی اور دیوالیہ ہو گئی تو امریکی معیشت پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ اگر درحقیقت ایسا ہوا تو اس کے امریکی معیشت پر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی مالیاتی منڈیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے مطابق امریکہ کو اپنے قرضوں کی حد جلد از جلد اوپر لے جانی چاہیے تاکہ عالمی معیشت کو ایک ’بڑے دھچکے‘ سے بچایا جا سکے۔
اوباما کی مشکل لیکن یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے اُنہیں اور اُن کے ڈیموکریٹ ساتھیوں کو ایوان نمائندگان میں اکثریت کے حامل ری پبلکنز کی حمایت چاہیے۔ اس موضوع پر تنازعہ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ ری پبلکنز کا مطالبہ ہے کہ اگر قرضوں کی حد میں اضافہ کیا جائے تو کچھ دوسرے شعبوں میں بچت بھی کی جائے۔ اوباما بچت تو کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ خاص طور پر کروڑ پتیوں، تیل کی صنعت اور کاروباری اداروں کے اپنے جیٹ طیاروں کے لیے ٹیکس مراعات بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اوباما نے اس حوالے سے کہا:’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی حد سے زیادہ بڑا مطالبہ ہے۔ میرے خیال میں زیادہ تر امریکی اس سے متفق ہوں گے۔‘‘
امریکی عوام تو شاید متفق ہوں گے لیکن ری پبلکنز نہیں۔ و ہ ٹیکسوں میں مراعات کے خاتمے کو سیدھے سیدھے ٹیکسوں میں اضافے سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے مسترد کر رہے ہیں۔ فریقین میں مذاکرات تعطل کا شکار ہیں لیکن دو اگست سے پہلے پہلے اُنہیں کسی نہ کسی نکتے پر متفق ہونا ہو گا ورنہ یہ ناقابل تصور بات ہو کر رہے گی اور امریکہ ریاستی طورپر دیوالیہ ہو جائے گا۔
رپورٹ: آنا اینگلکے (واشنگٹن) / امجد علی
ادارت: شامل شمس