امریکہ جوہری مذاکرات میں ’تاخیر‘ کر رہا ہے، ایران
22 اگست 2022ایران نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ 2015ء کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بالواسطہ مذاکرات میں ''تاخیر‘‘ کر رہا ہے اور یہ کہ قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات سے منسلک نہیں تھا۔ امریکہ اور ایران کے درمیان 16 ماہ تک بالواسطہ مذاکرات اور اس دوران یورپی سفارتکاروں کی فریقین کے ساتھ متعدد ملاقاتوں کے بعد یورپی یونین کے ایک سینئر عہدیدار نے آٹھ اگست کو کہا تھا کہ انہوں نے اس جوہری ڈیل کی بحالی کے لیے ایک ''حتمی‘‘ پیشکش کر دی ہے اور یہ کہ انہیں اس بارے میں چند ہفتوں کے اندر جواب موصول ہونے کی توقع ہے۔
ایران جوہری مذاکرات ختم، یورپی یونین کا 'حتمی مسودہ' زیرغور
ایران نے گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے متن کا جواب ''اضافی خیالات اور غور‘‘، کرنے کے ساتھ دیا اور ساتھ ہی واشنگٹن سے باقی کے تین مسائل کو حل کرنے میں لچک دکھانے کا مطالبہ بھی کیا۔ امریکہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ ایران کے ردعمل کا مطالعہ کر رہا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق ''امریکی تاخیر کر رہے ہیں اور یورپ کی طرف سے عدم فعالیت ہے۔ اس معاہدے کی ایران سے زیادہ امریکہ اور یورپ کو ضرورت ہے۔‘‘ ترجمان کے مطابق ایران ایک پائیدار ڈیل چاہتا ہے جو تہران کے جائز حقوق کی محافظ ہو: ''جب تک ہم تمام معاملات پر متفق نہیں ہو جاتے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایک مکمل معاہدے پر پہنچ چکے ہیں۔‘‘
دریں اثنا امریکہ متعدد بار ایران سے اُن ایرانی نژاد امریکی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کر چکا ہے، جنہیں تہران نے سلامتی سے جڑے الزامات کے تحت قید کر رکھا ہے۔ ایران امریکہ سے اپنے ان متعدد شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے جنہیں واشنگٹن نے ایران پر عائد پابندیوں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ایرانی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے ''ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ واشنگٹن کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ ایک الگ معاملہ ہے اور اس کا 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ اس ترجمان کا کہنا تھا کہ ایران قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں یہ کہہ کر 2015ء میں طے پانے والے معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اختیار کر لی تھی کہ اس میں ایران کے ساتھ بہت نرمی برتی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے ایران پر سخت پابندیوں کا دوبارہ نفاذ بھی کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ایران نے اس ڈیل کے جوہری پابندیوں سے متعلق شقوں کی پامالی شروع کر دی تھی۔
ایران نے آلات دوبارہ نصب نہ کیے تو معاہدے کی بحالی کو 'مہلک دھچکا' پہنچے گا، اقوام متحدہ
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم ایک اچھا معاہدہ چاہتے ہیں جو دیرپا اور ایران کے قومی مفادات کے تحفظ کا ضامن ہو۔ ترجمان کے مطابق ''ہم دو مرتبہ ڈسے نہیں جانا چاہتے۔‘‘
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے تحت واشنگٹن اور تہران کے درمیان ویانا میں 11 ماہ تک ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں 2015ء کا جوہری معاہدہ رواں برس مارچ کے مہینے میں بحالی کے قریب پر پہنچ گیا تھا۔ تاہم یہ مذاکرات ایران کی جانب سے اس طرح کی ضمانتیں طلب کرنے کے بعد ختم ہو گئے تھے کہ کوئی بھی امریکی صدر ٹرمپ کی طرح اس معاہدے کو ختم نہیں کرسکے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن اس سلسلے میں کوئی بھی یقینی ضمانت فراہم نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ معاہدہ ایک قانونی پابندی سے زیادہ سیاسی مفاہمت پر مبنی ہے۔
ش ر⁄ اب ا (روئٹرز)