توہین مذہب کے ملزم کے قتل میں معاونت کرنے والا گرفتار
20 اگست 2020شکاگو سے تعلق رکھنے والا 57 سالہ طاہر نسیم گزشتہ ماہ پشاور کی ایک عدالت میں توہین مذہب کے مقدمے کی سماعت میں شریک تھا جب ایک 15 سالہ لڑکے فیصل خان نے مبینہ طور پر پستول نکال کر اس پر فائرنگ کر دی۔ اس نے وہاں موجود لوگوں کو بتایا کہ اس نے طاہر نسیم کو پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے سبب قتل کیا ہے۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ فیصل اقبال کو یہ پستول طفیل ضیاء نامی شخص نے فراہم کی جو اس پستول کو عدالت کے باہر سکیورٹی چیک پوائنٹس سے گزار کر وہاں تک لایا۔
پشاور پولیس سربراہ کے دفتر کی طرف سے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا گیا کہ ضیا کو منگل 18 اگست کو گرفتار کیا گیا۔ اور یہ کہ وکلاء برادری سے تعلق کے سبب عدالتی احاطے میں داخلے سے قبل اس کی جامع تلاشی نہیں لی گئی۔ پشاور بار کونسل کے سربراہ نے بتایا کہ گرفتار کیا جانے والا طفیل ضیاء استغاثہ کے ایک وکیل کے ساتھ کام کرتا ہے۔
قاتل کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی سیلفیاں
پشاور کی عدالت میں توہین مذہب کا ملزم قتل
توہین مذہب کے معاملے پر امریکی شہری کا قتل، ٹیم تحقیقات کرے گی
15 سالہ فیصل خان کی گرفتاری کے بعد سے ہی اس کے حامی اسے 'غازی‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں نے نا صرف اس کے ساتھ سیلفیاں لیں بلکہ پشاور میں ہزاروں افراد نے اس کے حق میں مظاہرہ کیا اور اسے رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
توہین مذہب پاکستان میں ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا موت مقرر ہے۔ تاہم کئی لوگ عدالتی فیصلوں سے قبل ہی جان سے مار دیے جاتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ پاکستان سے مطالبہ کر چکا ہے کہ اس کے شہری طاہر نسیم کے قتل میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
فیصل خان کے وکیل انعام اللہ یوسف زئی نے روئٹرز کو بتایا کہ ان کے مؤکل نے معافی کی درخواست جمع نہیں کرائی تاہم انہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس مقدمے کی حساس نوعیت کے سبب فیصل کی کیس کی سماعت اس جیل میں ہی کی جائے جہاں اسے رکھا گیا ہے۔ یوسف زئی کے مطابق اس مقدمے کی سماعت آئندہ ہفتے شروع ہو سکتی ہے۔
ا ب ا / ا ا (روئٹرز)