امریکی صدارتی انتخابات: ’چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں‘
3 نومبر 2020امریکا میں انتہائی منقسم عوام منگل کو موجودہ ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹ سابق نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان ملک کے آئندہ صدر کے طور پر کسی ایک کا انتخاب کرنے جا رہے ہیں۔ اس بار کے امریکی صدارتی الیکشن نہ صرف امریکی عوام بلکہ پوری دنیا کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔
بین الاقوامی سیاست اور بین البراعظم تعلقات گزشتہ چند برسوں کے دوران غیر معمولی حد تک بدلے ہیں۔ موجودہ امریکی صدر کا 'امریکا فرسٹ‘ کا نعرہ دنیا کے بہت سے خطوں کے سیاستدانوں اور رہنماؤں کے لیے لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے۔ امریکا کی اپنی ساکھ کو کورونا بحران، امریکا میں نسل پرستی اور خود ٹرمپ پر ٹیکس اور دیگر معاملات میں غیر شفافیت کے الزامات نے جو نقصان پہنچایا، یہ سارے عوامل اس بار کے صدارتی الیکشن کے نتائج میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے ایک معروف ماہر سیاسیات اور پاک امریکی تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے لمز یونیورسٹی کے پروفیسر رسول بخش رئیس نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔ امریکی صدارتی الیکشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس بار کے انتخابات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب امریکا میں سیاسی اور سماجی تقسیم اتنی بڑی ہے، جتنی اس ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں رہی، '' ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حمایتی خود اس تقسیم کو پیدا کرنے والے ہیں۔ اسی تقسیم کی بنیاد پر ٹرمپ گزشتہ انتخابات جیتے تھے۔ انہوں نے اس تقسیم کو بڑھاوا دیا اور سمجھتے رہے کہ اس بار کے انتخابات بھی وہ اس کی مدد سے جیت لیں گے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''لیکن ہوا یہ کہ خود ریپبلکنز کے رائیٹ ونگ یا قدامت پسند حلقے سے کچھ لوگ منحرف ہو کر نکل آئے اور ان کا یہ ماننا ہے کہ ملک و قوم کو ٹرمپ کی سیاست نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس چیز کا نقصان ڈونلڈ ٹرمپ کو یقیناً پہنچے گا کیونکہ علامتی طور پر ماضی کے ریپبلکنز اب باہر نکل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جوبائیڈن کو ٹرمپ پر فوقیت دیں گے اور ان کا ووٹ اب ڈیموکریٹ امیدوار بائیڈن کے لیے ہے، یہ ٹرمپ پر ایک بڑے نفسیاتی دباؤ کا باعث بھی ہے۔‘‘
پروفیسر رئیس اس کی اہم ترین وجہ وہ معاشرتی بے چینی سمجھتے ہیں، جو کورونا بحران، نسلی امتیاز میں بہت زیادہ اضافے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی، شخصی کمزوریوں کے سبب پیدا ہوئی ہے۔ ان کے بقول لوگوں کا اعتماد ڈونلڈ ٹرمپ پر سے اُٹھ چکا ہے۔ انہیں دروغ گوئی اور ٹیکس کے سلسلے میں غلط بیانی جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
پروفیسر رئیس کا کہنا تھا،''اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس بار الیکشن جیت گئے تو میرے لیے یہ امر بہت بڑی حیرت کا باعث ہوگا۔ جو بائیڈن 'سوئنگ اسٹیٹس میں بھی ٹرمپ سے آگے نظر آ رہے ہیں، ان کا پلڑا بھاری ہے۔ تاہم امریکی انتخابات کے نتائج کے بارے میں آخر وقت تک کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ اس بار ووٹرز کا ریکارڈ ٹرن آؤٹ ہو گا اور رزلٹ اب تک کی پیشگوئیوں سے کہیں مختلف بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
ہم نے پروفیسر رئیس سے پوچھا کہ اگر ریپبلکن لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدارتی منصب کے لیے منتخب ہو گئے تو پاکستان اور امریکا کے موجودہ تعلقات پر کیا فرق پڑ سکتا ہے اور اگر ٹرمپ کو شکست ہوئی اور ڈیموکریٹ جو بائیڈن صدر منتخب ہو گئے تو دونوں ممالک کے تعلقات پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کے جواب میں ماہر سیاسیات رسول بخس رئیس کا کہنا تھا،'' جنوبی ایشیائی خطے میں افغانستان کی صورتحال کے پس منظر میں دیکھا جائے تو امریکا اور پاکستان کے تعلقات ماضی میں بہت کشیدہ اور کبھی بے حد دوستانہ، دونوں طرح کے رہے ہیں۔ امریکا اور پاکستان ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں، دوست ہی ہیں لیکن بہت پائیدار دوستی نہیں پائی جاتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں، پاکستان پر امریکی دباؤ تقریباً ختم ہی ہو گیا ہے۔ پاکستان نے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کامیاب ہونے چاہییں اور خطے میں امن ہونا چاہیے۔ پاکستان ایک عرصے سے امریکا کو طالبان سے بات چیت کرنے کا مشورہ دے رہا تھا لیکن واشنگٹن حکومت اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ اب وہ تیار ہے، امریکا اب افغانستان سے اپنی افواج نکالنے میں سنجیدہ نظر آ رہا ہے۔ اسلام آباد نے طالبان کو قائل کیا کہ وہ امریکی افواج کو نکلنے کے لیے راہداری فراہم کرے۔ پُر امن طریقے سے اور یوں وہ تاریخی معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت امریکا اور پاکستان افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کے تناظر میں اتحادی ہیں۔ اب جو بائیڈن آئیں یا ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بنیں، افغانستان کے حوالے سے پاک امریکی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی گی۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا اور بھارت ایک دوسرے کے بہت قریب آتے دکھائی دیے۔ اس قربت کے پاکستان امریکی تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور اس سلسلے میں مستقبل میں کیا امکانات نظر آ رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں پاکستانی اور بین الاقوامی امور و سیاسیات کے ماہر کا کہنا تھا،''میں اسے بھارت اور امریکا کی قربت نہیں سمجھتا۔ یہ انڈو پیسیفک ریجن میں ایک نیٹو جیسے اتحاد کے قیام کی کوشش ہے۔ اس کا مقصد چین کو اس خطے میں محدود رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس میں بھارت خود کو امریکا کا اتحادی بنا کر پیش کر رہا ہے مگر اصل کھیل کہیں دور کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے خاص طور سے جدید ٹیکنالوجی جس میں سیٹیلائٹ ایمیج سے کنٹرول بھی شامل ہے، اس کا تبادلہ یہ پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی نے امریکا کو دنیا سے اور دنیا کو امریکا سے الگ تھلگ کیا ہے۔ یہ کہنا ہے پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ کی جامشورو یونیورسٹی کے ماہر سماجیات اور بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر فتح محمد برفت کا، جو اس جامعہ کے وائس چانسلر بھی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کی جنوبی ایشیائی خطے کے لیے اہمیت کے بارے میں ان کا کہنا تھا،'' ٹرمپ کی پالیسیوں نے خاص طور سے جنوبی ایشیا، افغانستان، اور تقریباً تمام مسلم دنیا میں منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس لیے توقع یہی کی جا رہی ہے کہ خود امریکا میں سیاسی تبدیلی کے خواہشمند اپنے ووٹ کے ذریعے ٹرمپ کے مخالف یعنی ڈیموکریٹ لیڈر جو بائیڈن کا انتخاب کریں گے۔ کئی ریاستوں میں جہاں تارکین وطن اور خاص طور سے ہسپانوی نژاد باشندے آباد ہیں وہاں الیکشن کے نتائج آنا شروع ہو چُکے ہیں اور واضح نشاندہی ہو رہی ہے کہ اس وقت عوامی جذبات ٹرمپ مخالف اور بائیڈن کے حق میں ہیں۔‘‘
امریکا کے لیے پاکستان کی اہمیت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں پروفیسر برفت کا کہنا تھا،'' دنیا گلوبل ویلج بننے کے بعد سے کسی بھی ملک کو آئیسولیٹ یا الگ تھلگ ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ خاص طور عالمی منڈی میں امریکا کو اگر ایک قائدانہ کردار ادا کرنا ہے تو وہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ پاکستان رقبے اور آبادی میں بھارت سے بہت چھوٹا ہونے کے باوجود جغرافیائی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، افغانستان، بھارت، چین ،ایران یہ تمام وہ علاقے یہاں تک کے ترکی تک پاکستان کے اثرات موجود ہیں، پاکستان کو نظر انداز کر کے امریکا آگے نہیں بڑھ سکتا۔ امریکا کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی صورتحال کا دارومدار بہت حد تک پاکستان پر بھی ہے۔‘‘
حالیہ الیکشن کو پروفیسر برفت امریکا کے لیے ایک اہم موڑ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول،'' فیصلہ امریکی عوام نے کرنا ہے اور یہ جمہوری ہوگا جسے سب کو قبول کرنا پڑے گا۔ توقعات یہ کی جا رہی ہیں کہ امریکی عوام اپنی عقل و دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی پارٹی کی قیادت کو ووٹ دے گی جو وسعت نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلوبلائزیشن کے تقاضوں کو مدنظر رکھے گی۔ ٹرمپ دور میں طے پانے والے 'ابراہیمی معاہدے‘ جس میں امریکا نے اسرائیل کو مراعات دیتے ہوئے عرب دنیا میں ایک بے چینی پیدا کر دی ہے، اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ امریکا الگ تھلگ ہوتا گیا تو عالمی سطح پر وہ کردار ادا نہیں کر سکے گا جو وہ کرنا چاہتا ہے۔‘‘
کیا امریکا میں صدر کی تبدیلی سے امریکی خارجہ اور کسی حد تک داخلہ پالیسیوں میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے؟ اس بارے میں پروفیسر برفت کا کہنا تھا،'' جو بائیڈن آئیں یا ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں امریکی پالیسیوں میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آ سکتی۔ یہ محض توقعات ہیں کہ گزشتہ چار سالوں میں جو کچھ ہوا آئندہ اُس میں شاید تھوڑی سی بہتری آئے۔ یہ کس حد تک ممکن ہے، اس کا جواب وقت دے گا۔ ‘‘
پروفیسر برفت نے مزید کہا، '' وہاں کی انتظامیہ، ایجنسیاں اور تھنک ٹینک مل کر کم از کم پچاس برس آگے کی پالیسیاں اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ چہرے بدلنے سے اتنا سب کچھ نہیں بدل سکتا۔‘‘
کشور مصطفیٰ